قصہ ہائیڈپارک کا۔۔۔
لندن سے ایک صحافی دوست نے بتایا کہ 2016 میں احمد علی ریاض نے حسین نواز سے ایک جائیداد زیر پراپرٹی نمبر 1 واقع ہائیڈ پارک لندن 4 کروڑ پاؤنڈز میں خریدی، یہ پراپرٹی خریدنے کا ایک خاص مقصد تھا، اس وقت پاکستان میں نواز شریف وزیراعظم تھے، خیال یہ تھا کہ حسین نواز نے
یہ جائیداد پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے خریدی ہوگی، لہٰذا تمام ریکارڈ حاصل کرنے اور کیس و گواہی کو مضبوط کرنے کے لئے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر حسین نواز سے احمد علی ریاض نے یہ جائیداد خریدی تھی اور پھر پروگرام کے مطابق کسی شخص نے برطانوی کرائم ایجنسی کو شکایت کر دی کہ
یہ جائیداد وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے کرپشن کا پیسہ منی لانڈر کر کے خریدی۔
انکوائری شروع ہو گئی کہ پیسہ کدھر سے آیا؟
حسین نواز نے اپنی رقم کی تفصیلات دے کر پولیس کو مطمئن کر دیا کہ وہ رقم اسکی پراپرٹی کے کاروبار سے کمائی ہوئی تھی اور قانونی طور پر جائز تھی، لیکن
پولیس کو فکر پڑ گئی کیونکہ برطانیہ میں جھوٹی انکوائری پر پولیس کے خلاف کارروائی ہوجاتی ہے اور جھوٹی انکوائری والا بری طرح پھنس جاتا ہے لہٰذا ان کو ایک نئے نکتے پر سوچنا پڑ گیا کہ حسین نواز کے خلاف جھوٹی رپورٹ کیوں کروائی گئی؟
جس نے حسین نواز سے وہ جائیداد خریدی اس کے پاس پیسہ
کہاں سے آیا؟
مزید چھان بین پر انکشاف ہوا کہ احمد علی ریاض (ملک ریاض کا بیٹا) نے بلیک منی سے وہ جائیداد خریدی تھی، نہ صرف یہ جائیداد بلکہ مزید ایسے 8 اکاؤنٹس پکڑے گئے جو پاکستان سے پیسہ چوری کر کے لے جایا گیا تھا، مجموعی طور پر 500 ملین پاؤنڈز سے زیادہ کی غیر قانونی رقم پاکستان سے
چوری کر کے لے جائی گئی تھی،
اس موقع پر علی ریاض نے پولیس (NCA) کو درخواست دی کہ میں کاروباری آدمی ہوں، آپ، بجائے کئی سال کیس چلانے کے، مجھ سے 500 کی بجائے 190 ملین پاؤنڈز لے کر پاکستانی حکومت کو واپس کردیں اور کیس یہیں پر بند کردیں اور یہ معاہدہ خفیہ رکھنے کا وعدہ بھی کریں۔
اس پر NCA نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا کہ آپ کے ملک کا پیسہ 500 ملین پاؤنڈز ہم نے پکڑا ہے اگر پوری رقم ریکور کرنے کے لئے کیس چلانا ہے تو آپ کیس کی پیروی کریں یا پھر دوسری صورت میں 500 کی بجائے 190 ملین پاؤنڈز مل رہا ہے، یہ لے لیں اور کیس یہیں پر بند کردیتے ہیں،
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ٹھیک ہے 190 ملین پاؤنڈز ہی دے دیں، میں اپنی کابینہ سے منظوری لے لیتا ہوں،
کابینہ کا اجلاس بلایا گیا، خفیہ معاہدے والا لفافہ بغیر کھولے دکھا کر منظور کرنے کا کہا گیا تو شیریں مزاری اور اسد عمر نے اعتراض کیا کہ NCA کا معاہدہ دیکھے بغیر دستخط کرنا
مناسب نہیں، لہٰذا اجلاس ملتوی کردیا گیا،
اگلے اجلاس میں عمران خان کو کابینہ نے 190 ملین پاؤنڈز وصول کرنے کی منظوری دے دی، اب دلچسپ مرحلہ شروع ہوتا ہے،
برطانوی این سی اے نے عمران خان سے سرکاری خزانے کا اکاؤنٹ نمبر مانگا تاکہ اس میں رقم ٹرانسفر کی جاسکے،
عمران خان نے قومی خزانے
کا اکاؤنٹ نمبر دینے کی بجائے سپریم کورٹ کا وہ اکاؤنٹ نمبر دے دیا جس میں ملک ریاض جرمانے کی رقم جمع کرواتا تھا، اور وہ "ڈیم فنڈ" کی طرز کا مخصوص اکاؤنٹ تھا، لہٰذا برطانیہ سے رقم قومی خزانے میں جانے کی بجائے سیدھی ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگئی، یعنی عوام کا پیسہ ملک ریاض
کے اکاؤنٹ میں جمع کروادیا گیا۔
یہ ہے عمران خان کا اصل جرم یا کرپشن کہ رقم منگوانے کیلئے عمران خان نے سٹیٹ بنک کا اکاؤنٹ نمبر دینے کی بجائے سپریم کورٹ سے ملک ریاض کا اکاؤنٹ نمبر کیوں دیا اور عوام کا پیسہ ملک ریاض کو کیوں دیا، بدلے میں اس سے کتنا پیسہ لیا؟
نتیجہ،۔ جو جال حسین نواز اور نواز شریف کو پھنسانے کے لئے پھیلایا گیا تھا اس میں شکاری خود پھنس گئے، #copied
یہاں یہ بات بھی دھیان میں رکھیں کہ مغربی ممالک میں پولیس کیس کرنے میں کوئی ٹائم فریم نہیں ہے آپ 5 سال بعد بھی پولیس یا کسی بھی محکمہ پر کیس کر سکتے ہیں کہ ہمیں ذہنی اذیت
دی گئی غلط انفارمیشن پر اور کیونکہ ہم ٹراماٹائزڈ تھے لہذا اب ہم اس ٹراما سے نکلے ہیں ہمیں کمپنسیٹ کیا جائے۔
ویسے اگر حسین نواز اب علی ریاض پر کیس کر دے پھر؟
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
“پرسوں نا میری خالہ آئیں اور شام کو پاس بٹھا کر میرے ہاتھ میں انگوٹھی ڈال دی ۔ میری امی نے شکر ادا کیا”
“کل تائی اماں ہمارے گھر آئیں اور میرے سر پہ دوپٹہ ڈالا ۔ امی ابا اتنے فکر مند تھے کہ دیر کیوں کر رہی ہیں؟”
۔
“پھوپھی نے ہاتھ پہ پیسے رکھے اور ساتھ میں مٹھائی کا ٹوکرا۔امی کے وظیفے کام آ ہی گئے”
“آج کل روزانہ ماسی آتی ہے ہمارے گھر ، ہاتھ میں ڈھیروں تصویریں لے کر ۔ امی کا تو پریشانی سے برا حال ہے”
“ ہاں میری امی نے بھی کل ہی دو ماسیوں کو میری تصویریں دی ہیں”
منہ لال، چمکتی آنکھیں ، فخریہ لہجہ، اپنی قدروقیمت جتانے والا انداز، سہلیوں کی واہ واہ، تصویروں پہ سب کے جھکے سر، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جاتی البم، انگوٹھی کی زیارت کرنے کی تمنا، دولہا کا نام لے کر چھیڑنے کی کوشش!
اشفاق احمد کہتے ہیں میری نواسی کا بچہ باہر لان میں کھیل رہا تھا۔مجھے علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے۔میں اپنی نواسی سے بات کرتا رہا۔اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میں لتھڑے ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پرکیچڑ اور اس کے منہ پر چھنچھیاں لگی ہوئی تھیں۔وہ اندر آیا اور اس نے دونوں ہاتھ
محبت سے اوپر اٹھا کر کہا۔‘‘امی مجھے ایک جھپی اور ڈالیں۔ پہلی جپھی ختم ہو گئی ہے۔’’ تو میری نواسی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگالیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا ہو گا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہوگی جو اسے ایک جپھی نے عطا کی ہوگی اور جب اس نے محسوس کیا کہ
مجھے اپنی بیٹری کو ری چارج کرنے کی ضرورت ہے
وہ جھٹ سے اندر آگیا۔
ہر ایک شخص کو کسی نہ کسی سطح پر محبت کے اظہار کی ضرورت ہے۔ آپ گھر میں اپنی امی جان کو دیکھیں۔ وہ سارا دن آپ کے کاموں میں الجھی رہتی ہیں ۔ ان کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان کی زندگی کا مقصد ہی آپ کی بہترین تربیت اور
میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے۔ اس کے علاوہ میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔
میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی تو بابا جی نے کہا: " اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی)
بھر کے، مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔
میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بِنا محنت کیے، اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔
ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ
نعمت خانہ
مجھے ڈرائیور کی ضرورت تھی ابا جی سے ذکر کیا تو انہوں نے گاؤں سے مظہر احمد کوبھجوا دیا
ابا جی نے اُس کی بہت تعریف کی تھی ۔ بہت نیک اور شریف لڑکا ہے ۔ دسویں پاس ہے ۔اسے رکھ لو ۔۔۔ اس کی ماں تمہیں دعائیں دے گی اور ماں کی دعائیں میرا سب سے بڑا ویک پوائنٹ تھا
میں دعائیں
ہاتھ سے کیسے جانے دیتا فورا مظہر احمد کو بھیجنے کا کہہ دیا ۔۔۔۔۔وہ گاڑی چلانا جانتا تھا کچھ دن کی ٹرینگ کے بعد اُس نے باقاعدہ چارج سنبھال لیا ۔ ابا جی مظہر کے بارے میں ٹھیک کہتے تھے ِاس کا ندازہ مجھے اُس دن ہو گیا ۔
صبح جاگنگ سے واپسی پر سرونٹ کواٹر سے آتی تلاوت کی آواز نے میرے
قدم روک لیئے ۔ یہ مظہر احمد تھا ۔ میرا وہ سارا دن بہت اچھا گزرا میں اپنے دل کی خوشی کی وجہ نہیں جان پایا مگر میں خوش تھا بہت خوش ۔ اور پھر میں اکثر خوش رہنے لگا ۔ روز مرہ کی مصروفیت بزنس کے معا ملات سب کچھ ویسا ہی تھا فرق صرف اتنا تھا کہ اب مجھے چیزیں پریشان نہیں کیا کرتی تھیں ۔
مغرب کاوقت قریب تھامیں کرکٹ کھیل کرگھر پہنچا۔امی ابو کو سلام کیا۔امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پردیکھا کرتی تھیں۔مجھے کچھ گڑبڑ لگی البتہ اباجی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا.ہیلمٹ اور بیٹ رکھاہی تھا کہ ابانے کہا،"بچے چلوکھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی،
یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں۔میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہالوں"
تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکرنہا لینا۔"مجھے انہونی کا احساس ہونے لگاپر میں اباجی کے ساتھ چل پڑا۔خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا،راستے میں آنے جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام
کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے،میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے،"یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟"میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو ابا جی نے پوچھا "اب رکھو گے نیا کتا یا نہیں ؟؟"میں نے کہا