#Kashmir
Thread
That the political elite of Pakistan and Azad Kashmir had washed their hands off the Indian-occupied Kashmir became evident in July 2016 when Burhan Wani was martyred. As unprecedented protests broke out in IOK and the Indian forces responded with unmatched
brutalities, these elite just looked the other way.There're many other instances to suggest that they had become totally insensitive to the affairs of the IOK. They did continue with their rhetoric about the Kashmiris’ rights, but it was meant for nothing more than cheap public
consumption in order to keep themselves relevant. By default, this policy of having forgotten about IOK amid continuing empty rhetoric has brought innumerable hardships to the people of IOK. But to themselves, it has brought unprecedented perks & privilllges apart from salary
raises and luxury cars. There has also been unprecedented corruption in the region since 2016. While in the rest of the world, the war booty comes after the end of the war, the AJK elite have acquired this booty by stepping away from the war the Kashmiris
#Kashmir
Thread
That the political elite of Pakistan and Azad Kashmir had washed their hands off the Indian-occupied Kashmir became evident in July 2016 when Burhan Wani was martyred. As unprecedented protests broke out in IOK and the Indian forces responded with unmatched
brutalities, these elite just looked the other way.
There are many other instances to suggest that they had become totally insensitive to the affairs of the IOK. They did continue with their rhetoric about the Kashmiris’ rights, but it was meant for nothing more than cheap
public consumption in order to keep themselves relevant. By default, this policy of having forgotten about IOK amid continuing empty rhetoric has brought innumerable hardships to the people of IOK. But to themselves, it has brought unprecedented perks and privilllges apart from
کیا اختیار چاہیے ان کو ؟ اس narrative کو debunk کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ نیلسن منڈیلا کو کوئی کردسر دیا گیا تھا؟ کیا ان کی حکومت تھی؟ کیا ان کے ہاس کوئی territory تھی؟ کیا گاندھی اور جناح کو کوئی کردار دیا گیا تھا؟ کیا یاسر عرفات کو کوئی کردار دیا گیا تھا؟
ان کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی کوئی حکومت یا territory. وہ اپنی مرضی سے سفر بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ان میں سے کچھ رنماؤں نے ساری عمر جیلوں میں گزاری۔ ان کے برعکس آزاد کشمیر میں ایک حکومت ہے اور territory بھی ہے اور جب چاہیں بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ سنہ 1990 سے اب تک
آزاد کشمیر کے تمام وزرائے اعظم، وزیروں اور اراکین اسمبلی نے کشمیر کے نام پر لگ بھگ تمام مغربی ممالک اور عرب ممالک کا دورہ کیا جہاں انہوں نے parliamentarians Congressmen, سفارتکاروں اور حکام سے ملاقاتیں کیں۔ مغربی ممالک اور عرب ممالک کے وفود بھی آزاد کشمیر کا دورہ کرتے رہے۔
آپ کب جارہے ہیں کشمیر کو ہاکستان بنانے @SaleemKhanSafi
اسلام آباد میں بیٹھے صحافیوں کو صورت حال کا اندازہ نہیں ہے۔ ان کو یہ بھی نہیں پتا ہے کہ وادی کشمیر کی کل آبادی 80 لاکھ ہے۔ یہ انڈیا کی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں۔ ان پر 10 لاکھ فوج حملہ آور ہے۔ ان کا وجود خطرے میں ہے۔
اس چھوٹی سی آبادی کے وجود کو کیسے برقرار رکھا جائے یہ اہم ہے۔ خیر آپ کو اس سے کیا تعلق۔ آپ مظفرآباد میں ہیں۔ اسی مظفرآباد میں آپ کے ارد گرد ہزاروں کشمیری پناہ گزین ghettos میں رہتے۔ اب کی خبر لیتے۔ ایک بار اور جس آزاد کشمیر کی حکومت کے تعاون سے یہ ایونٹ منعقد ہوا وہ 2016 سے
کشمیر کی صورت حال سے لاتعلق رہی۔ کیا آپ نے اس ہر کوئی سوال اٹھایا؟
اپ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو معاف رکھو۔ @SaleemKhanSafi
آزاد کشمیر کی حکومتوں کا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں یا آیل او سی پر بسنے والے لوگوں کے ساتھ کیا تعلق۔ ان ہی حکومتوں کی وجہ سے کشمیر کے لوگوں کی کالی رات اور گہری اور لمبی ہوتی جارہی ہے۔ جہاں تک اس طرف کے میڈیا کے کردار کا سوال ہے تو اس کا کوئی زیادہ کردار نہیں ہے۔
وہ کسی واقع کو رپورٹ کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ میڈیا کے کردار کے بجائے آزاد کشمیر کے حکومتوں کے کردار پر بات ہونی چاہیے کہ کس طرح سے آزاد کشمیر کی حکومتوں نے دونوں طرف کے کشمیریون کے پیٹھ میں خنجر گھونہا ہے۔ کشمیر کے دونوں طرف جامع studies ہونی چاہیے تھی۔
اس طرف ایل او سی پر بسنے والے لوگوں کے نفسیاتی مسائل، صحت کے مسائل، معاشی مسائل اور سماجی مسائل کے علاوہ ان کو پہنچنے والے جانی اور مالی نقصان پر studies ہونی چاہیے تھی اور وہ حکومت کی کراسکتی کیوں کے ان کے پاس وسائل ہیں۔ وہ ایک عام صحافی نہیں کرسکتا۔ لیکن آزاد کشمیر کی کسی
حیرت ہے کہ چار سال بعد آزاد کشمیر کی حکومت کو دفعہ 370 اور 35A یاد آیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان آزاد کشمیر حکومت کے اشتراک سے مظفرآباد میں ایک event منعقد کررہی ہے۔ اس میں دفعہ 370 اور 35A پر بات ہوگی۔ انڈیا نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کا special status ختم کردیا تھا۔
اس دوران آزاد کشمیر اسمبلی درجنوں اجلاس ہوئے۔
لیکن دفعہ 370 اور 35A کے revocation کے معاملے پر ایک بھی اجلاس طلب نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر آزاد کشمیر کی political elite نے مکمل خاموشی اختیار کی۔
بہت سارے لوگ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی حکومتوں نے انڈیا کے actions کی خاموش حمایت کی۔
اب آزاد کشمیر کے ان سیاست دانوں کو دفعہ 370 اور 35A پر گفتگو کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو اس پر آج تک خاموش رہے۔
کشمیر roll back کی ایک واضع ثبوت یہ بھی کہ اگست 2021 میں آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور عبدالقیوم نیازی وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ اقتدار سمبھالتے ہی انہوں نے اپنے حلقے کے 25 لوگوں کو کشمیر لبریشن سیل میں بھرتی کیا۔ اس ہر کافی تنقید ہوئی جس کے بعد انہوں نے
اعلان کیا کہ مسلہ کشمیر کو بہتر انداز میں اجاگر کرنے کے لیے کشمیر لبریشن سیل کا نام تندیل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو restructure کیا جائے گا۔ اپریل 2022 میں ان کی حکومت ختم ہوئی مگر لبریشن سیل کا نام تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی اس کو restructure نہیں کیا گیا۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے
بعد تنویر الیاس کی حکومت قائم ہوئی۔ انہوں نے بھی یہ کہا کہ لبریشن سیل کا نام تبدیل کیا جائے گا اور اس کی restructure کیا جائے گا ۔ ان کی حکومت ایک سال رہی لیکن وہ بھی یہ نہ کر سکے۔ اس کے بعد خواجہ فاروق چند دن کے لیے وزیر اعظم بنے وہ بھی یہ کام نہیں کرسکے۔ گزشتہ ماہ انوارلحق