دوستو، کتاب زندگی ڈاٹ کام لانچ ہو چکی ہے، فیس بک پر کتاب زندگی کے فالورز بغیر کسی اشتہاری مہم کے، تین ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر بھی احباب کی طرف سے اچھا ریسپانس آ رہا ہے جس کےلیے آپ سب کا مشکور ہوں۔
کتاب زندگی پراجیکٹ کا بنیادی مقصد دوست احباب میں کتب پڑھنے کی خواہش پیدا کرنا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اب اکثر کسی نہ کسی دوست کی کال یا میسج پر فرمائش ہوتی ہے کہ انہیں کوئی اچھی سی کتاب تجویز کی جائے جس سے ان میں کتب پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔
کچھ دن پہلے ایک دوست سے کچھ سامان منگوانے کے بعد جب رقم کا پوچھا تو اس نے ہنس کر کہا کہ یار کچھ اچھی سی کتابیں بھیج دینا حالانکہ میں نے انہیں پہلے کبھی کتاب پڑھتے نہیں دیکھا۔
میرے پاس کوئی لامحدود بجٹ تو نہیں کہ میں جدید ترین اسٹوڈیو میں بیٹھ کر کتب کے بارے ویڈیوز بناؤں،
نقشہ پر افریقہ بظاہر امریکہ جتنا ہی دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ امریکہ سے تین گنا زیادہ بڑا رقبہ ہے۔یہ ایک متنوع جغرافیہ پر مشتمل ملک ہے جس کے ناموزوں موسم اورسخت گرمی نے بہت سی متعدی بیماریوں کے پنپنے میں اہم کردار ادا کیا۔
افریقہ کے دریا قابلِ سفر نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ تجارت کے فروغ میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔افریقہ کے تین اطراف میں سمندر اور چوتھی سمت صحرائے صحارا ہے جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک باقی دنیا سے لاتعلق رہا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جغرافیائی حدود و قیود کی وجہ سے باقی دنیا کی
نسبت افریقہ میں جدید ٹیکنالوجی بہت دیر سے پہنچی۔ یہ مسلمان فاتحین ہی تھے جنہوں نے پہلی دفعہ اس وسیع و عریض صحرا کو پار کر کے سرزمین ِافریقہ پر قدم رکھا۔بعد میں یورپی اقوام نے افریقہ کو اپنی کالونی بنایا تو یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا۔ جاتے جاتے یورپی اقوام نے افریقہ میں
ورپ میں موسم، زمین اور دریا سبھی تجارت ،زراعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں معاون ہیں۔ دریائے ڈینوب کئی ممالک کی قدرتی سرحد کا کام سرانجام دیتا ہے۔البتہ شمالی اور جنوبی یورپ کی ترقی میں فرق ضرور ہے کیونکہ شمالی یورپ کا جغرافیہ تجارت، زراعت اور
صنعتوں کے فروغ کےلیے زیادہ موزوں ہے۔ جبکہ جنوبی یورپ کے ساحلی علاقوں، ناہموار زمین اور ناقابلِ سفر دریاؤں نے اسے شمالی یورپ سے کم ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سویڈن اور فن لینڈنیٹو میں شامل ہونے کی جتنی مرضی خواہش رکھیں،وہ کیونکہ جغرافیائی طور پرروس کے قریب ہیں
اس لیے ان ممالک کا نیٹو میں شمولیت اختیار کرنا روس کےلیے ناقابلِ قبول ہو گا کیونکہ نیٹو میں شمولیت کا مطلب روس کے ہمسائے میں امریکی میزائلوں کی ممکنہ تنصیب ہو سکتا ہے۔ پولینڈ کا روس کے ساتھ ہونا امریکہ کےلیے ایک اہم جغرافیائی اتحادی ہونے کا باعث ہے۔ فرانس اور جرمنی جو پہلے حریف
امریکہ کی قدرتی سرحدیں ہی اس کا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار ہیں۔دو اطراف میں سمندر ہی سمندر ہے۔باقی دو اطراف میں فرمانبردار ہمسائے ہیں جو معاشی،فوجی اور نظریاتی اعتبار سے اتنے طاقتور نہیں کہ امریکہ کےلیے خطرہ بن سکیں۔
کسی بڑی طاقت کو امریکہ پر لشکر کشی کےلیے ہزاروں کلومیٹر لمبی سپلائی لائن برقرار رکھنا ہو گی جو کہ ایک طاقتور امریکی بحریہ کی موجودگی میں ناممکن ہے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے دو نقشے ہیں۔ایک اس کا حقیقی جغرافیائی نقشہ جو براعظم امریکہ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حدود متعین کرتا ہے
دوسرا ایک تصوراتی خاکہ جو پوری دنیا میں امریکہ کے فوجی اڈوں،بحری بیڑوں اور حلیف ممالک کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ کو جنگ میں امریکی تباہ کن بیڑوں کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے اس شرط پر دینے کی ہامی بھری کہ بدلے میں برطانیہ اپنے بحری اڈے امریکہ کے حوالے کرے گا۔
چین کے شمال میں صحرائے گوبی کی صورت میں ایک جغرافیائی دفاع موجودہے،روس کے ساتھ سرحدی علاقہ پہاڑی ہے۔ جنوب میں لاؤس اور برما کے ساتھ سرحدی علاقہ بھی پہاڑی ہونے کی وجہ سے محفوظ ہے۔اس طرف صرف ویتنام ہی ہے جہاں سے چین پر حملہ کیا جا سکتا ہے
لیکن ویتنام ایک کمزور ملک ہے جس سے چین کو کوئی خطرہ نہیں۔تبت کو چین کا پانی کا منبع کہا جاتا ہے،یہاں بھارت کا اثرورسوخ چین کےلیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔اسی خطرہ کو کم کرنے کےلیے چین نے ایک ناممکن کام کیا،تبت کے خطرناک پہاڑوں سے ریلوے ٹریک گزار کر اسے چین کے باقی علاقوں سے
منسلک کیا اور ہان نسل کے چینیوں کو ایک وسیع تعداد میں یہاں آباد کرنا شروع کر دیا۔غیرسرکاری ذرائع کے مطابق اب تبت میں ہان افراد کی تعداد تبتیوں سے زیادہ ہے۔قازقستان ایک کمزور ملک ہے ،اسی لیے یہ سرحد بھی چین کےلیے محفوظ ہے۔انڈیا اور پاکستان کے ساتھ چین کی سرحد بھی کوہِ قراقرم کی
روس جغرافیہ کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ساٹھ لاکھ مربع میل پر مشتمل اس ملک کا رقبہ گیارہ ٹائم زونز سے گزرتا ہے۔ایک طرف اس کی سرحدیں یورپ میں ہیں دوسری طرف اس کا ایک وسیع رقبہ ایشیاء میں بھی ہے۔روس کا جغرافیہ ہی اس کا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار ہے
شمال میں آرکٹیکٹ ہے جو ہزاروں سال سے منجمد ہے، جنوب میں منگولیا اور کازکستان ہیں جہاں سے دو وجوہات کی بنا پہ روس کو کوئی خطرہ نہیں۔ایک تو ان دونوں ملکوں کے ساتھ روس کا جغرافیہ ایسا نہیں کہ کوئی فوج وہاں سے روس پر لشکر کشی کر سکے، اگر جغرافیہ ایسا ہو تب بھی یہ دونوں ملک
فوجی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ روس جیسی طاقت سے براہِ راست پنگا مول لیں،پھر قازقستان ہے بھی روس کا حلیف۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی تشکیل کے وقت سٹالن نے ایک منصوبہ بندی کے تحت اس طرح سے ریاستوں کی سرحدیں کھینچی تھیں کہ ہر ملک میں ایک بڑی اقلیت موجود ہو