#28مئی_یوم_تکبیر
یہ 27 مئی 1998 کا دن تھا
👇👇
ان دنوں میں پاک فضائیہ کےNo 6 ATS Squadron میں فلائٹ کمانڈر (آپریشنز) کےفرائض انجام دے رہاتھا
اس دن معمول کےمطابق دوپہر کو چھٹی کے بعد میں گھر پہنچا ہی تھاکہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی دوسری طرف آفیسر کمانڈنگ ونگ کمانڈر سرفراز تھے
👇1/24
پوچھنے لگے
کھانا کھا لیاھے میرے نفی کےجواب پر بولے
کوئی بات نہیں میرےدفتر آجاؤ وہیں اکھٹےکھاتےہیں
اسکوڈرن پہنچا
تو بیس کمانڈر صباحت صاحب افسر کمانڈنگ سےکہہ رہےتھےکہ اسٹینڈ بائی ائیرکرو(stand by aircrew)اس مشن کیلئےٹھیک نہیں کسی سینئر کو بھیجو
(واضح رہےسٹینڈ
#یوم_تکبیر
👇2/24
بائی عملہ کسی بھی ایمرجنسی
کیلئے ہر دم تیار رہتاھے)
جس پر منور صاحب نےمجھےکہا کہ سہیل تم خود کیوں نہیں جاتے؟ مجھےابھی تک مشن کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا
اسلئےمیں نے پوچھا
سر مشن کیا ہے؟” سب نے سرفراز صاحب کیطرف دیکھا، تو وہ بولے
سر میں نے فون پر بتانا مناسب نہیں سمجھا
👇3/24
اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر مشن کے بارے میں بتانےلگے
جس کےمطابق یہ سرگودھا سے کوئٹہ تک سازو سامان کی ترسیل کا مشن تھا
مشن کی تفصیل سن کر میں نے کہا کہ سر یہ مشن میرا کوئی بھی کپتان کر سکتاھے،کیونکہ سرگودھا اور کوئٹہ اسپیشل ائیر فیلڈز نہیں ہیں،اور اسکواڈرن کےتمام پائلٹس
👇4/24
اور دیگر عملہ کیلئےیہ ایک معمول کا مشن ہوگا۔جس پر منور صاحب بولےکہ کوئٹہ دن کےوقت اسپیشل نہیں ہےلیکن سرگودھا سےمتوقع ٹیک آف کا ٹائم عصر کےبعد ہوگا جس کا مطلب ہےکوئٹہ میں نائیٹ لینڈنگ ہوگی اور موسم بھی خراب ہونےکاخدشہ ہے۔پھر انہوں نےگہری سانس لےکر مشن کی اہمیت اور حساسیت
👇5/24
کا ذکر کیا اور کہا کہ اسیلئے تم خود جاؤ
ان دنوں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک میں یہ بحث جاری تھی کہ پاکستان کو بھی اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہئیے یا ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہئیے
میں آج فخر سےکہہ سکتا ہوں کہ پاک فضائیہ کے ہواباز اور جوان بھارتی جارحانہ اقدام کا
👇6/24
بھرپور جواب دینےکےحق میں تھے اور پاک فضائیہ کےکمانڈر ائیر چیف مارشل پرویز مہدی قریشی نےبھی ایٹمی دھماکوں کےحق میں اپنی رائے کا برملا اظہار کیاتھا
آخری فیصلہ بہرحال ملک کی سیاسی قیادت نےہی کرنا تھا
منور عالم صاحب کی گفتگو سے مجھےاحساس ہوا کہ یہ ایٹمی دھماکوں کیلئے مطلوبہ
👇7/24
سازوسامان کی ترسیل کا مشن ہے اور اللّہ سبحان تعالٰی مجھے ایک عظیم سعادت سے نواز رہا ہے۔ میں نے سر تسلیم خم کر دیا۔
تقریباً 40-45 منٹ میں سارا crew بریفنگ روم میں اکٹھا ہو گیا۔
بریفنگ کے بعد میں واپس اپنے آفس میں آیا اور اپنے سینئرز کو، جو کہ ابھی تک وہیں بیٹھےہوئے تھے
👇8/24
تمام تیاریوں سےآگاہ کیا۔ اب ہم منور صاحب کیطرف سےgo ahead کا انتظار کر رہےتھے جو کہ PAEC کیطرف سے گرین سگنل کا انتظار کر رہےتھے
تھوڑی دیر کیبعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ جہاز کو سرگودھا بھیج دیاجائے
سرگودھا سےاڑنےکےبعد جب میں نےمعمول کےروٹ کو چھوڑ کر رفیقی ائیر بیس کا رخ کیا
👇9/24
تو رضوی میرے پاس آیا اور ہیڈ سیٹ اتار کر بولا
سر کدھر جا رہےہیں؟
میں نےہیڈ سیٹ پہن کر بتایا
ہمارے پاس کیاھے
ہمیں کس روٹ سےجاناھے۔ یہ سن کر سارا crew جذباتی ہوگیا اور رضوی نے جذبات میں آ کر نعرہ تکبیر بلند کر دیا جسکا سب نےپُرجوش جواب دیا۔ میں نےقمر کو ایک چٹ نکال کر دی
👇10/24
جس پر ایک frequency اور ریڈار کنٹرول کا نام لکھا ہوا تھا
اسےکہا کہ اس کنٹرولر سےرابطہ قائم کرے۔ریڈار کنٹرولر نےہمارا call sign سنتےہی ہمیںradar heading دیدی اور اسکےبعد ہم کوئٹہ تک مختلف ریڈارز کےکنٹرول میں رہےیہ ریڈار کنٹرولرز ہمیں لمحہ بہ لمحہ کوئٹہ کا موسم بتا رہےتھے
👇11/24
جو کہ اہستہ آہستہ خراب سے خراب ہوتا جا رہاتھا
جب ہمارا رابطہ کوئٹہ کنٹرول ٹاور سےہوا تو اس نےسب سےپہلےکوئٹہ کا موسم بتایاجو کہ C-130 کے لئیے مناسب نہیں تھا۔ visibility ایک کلومیٹر اور اس سےکم تھی جبکہ 25 سے30 ناٹ کی crosswind تھی جو کہ 35 ناٹ تک پہنچ رہی تھی
#شکریہ_نوازشریف
12/24
اسکے علاوہ وادئ کوئٹہ میں گردو غبار اور تیز آندھی کی weather warning بھی تھی
نارمل حالات میں اسطرح کےموسم میں صرف diversion ہی کر سکتےتھے
لیکن نارمل حالات میں کوئٹہ میں رات کو لینڈ بھی نہیں کرسکتے تھےآج وہ دن تھا جس کیلئےہم ساری عمر تیاری کرتےآ ئےتھے
اسلئے
#شکریہ_نوازشریف
👇13/24
ہم نےlanding attempt کرنےکا فیصلہ کیا
سائنسدانوں اور حساس سامان کی حفاظت کا ذمہ میرے ناتواں کندھوں پرتھا
لیکن کیونکہ مجھےزمیں نظر آ رہی تھی اور مجھےمعلوم تھا کہ میں رن وے کے funnel area میں ہوں اسلئے میں نے100 فٹ اور نیچے جانےکا فیصلہ کیا۔ اور زمین سے 100 فٹ کی انچائی
👇14/24
پر اچانک مجھے رن وے نظر آ گیا ہم رن وے کے بائیں کنارے کی سیدھ میں تھے، میں نےفوراً جہاز کو رن وے کی centreline کے ساتھ سیدھاکیا اور ہم کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر اتر گئے
ہمیں کوئٹہ air movement flight کے سامنے پارک کروایا گیا۔ Air movement tarmac کو فوجی کمانڈوز نےچاروں طرف
👇15/24
سےگھیر رکھا تھا-جہاز کےرکتے ہی فوجی کمانڈوز نےاسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ہمیں حکم تھا کہ جب تک حساس لوڈ اور سائنسدان اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے نہ جائیں کسی اور کو اترنےکی اجازت نہ دیں۔جہاز کےصرف crew entrance door اور loading ramp کو کھولا گیا اور ہم سب
نےسائنسدانوں کے
👇16/24
ساتھ مل کر اُن بکسوں کو جہاز سے اتارا اور وہاں موجود فوجی گاڑیوں میں رکھ دیا۔ اُس سامان کو receive کرنے والوں میں پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان اور دیگر سینئر فوجی حکام شامل تھے۔ وہاں موجود ایک سینئر سائنسدان نے ہمیں بتایا کہ وہ کوئٹہ کے موسم کی وجہ سے پریشان تھے
👇17/24
وہ بہت خوش تھےانکا مطلوبہ سامان انکو بروقت مل گیاتھا
انہوں نےہمیں شاباش دی اور ہمارا شکریہ ادا کیا۔میں نےان سے پوچھا کہ سر ہمیں خوشخبری کب مل رہی ہےتو وہ بولےانشأاللّہ کل صبح پوری قوم خوشخبری سن لیگی
اسکےبعد وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئےاور وہ فوجی قافلہ وہاں
سےروانہ ہو گیا
👇18/24
اسکے بعد اسکواڈرن کا سامان بھی وہیں اتار دیاگیا اور ہم کراچی
کیلئے اُڑ گئے رات کےتقریباً گیارہ بجے ہم فیصل ائیر بیس پر اترگئے
اگلے دن صبح ہم نےفیصل ائیر بیس سے ائیر ڈیفینس کی units کو گوادر position کیا اور شام کو تقریباً ساڑھے تین بجےچکلالہ کیلئے واپسی کا سفر شروع کیا
👇19/24
راستےہم ریڈیو پاکستان سنتےآئے ہمیں خبر کا انتظار تھاجسکاہم بچپن سےانتظار کرتےآئےتھےآخرکار جب وزیراعظم نوازشریف کا خطاب شروع ہوا تو میں نےاسےPA system پر مسافروں کیلئےنشر کر دیا
جب وزیراعظم نےکہا آج ہم نے بھارت کےایٹمی دھماکوں کا جواب دیدیاھے
پانچ ایٹمی دھماکے کئے ہیں
👇20/24
تو پورا جہاز نعرۂ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کےنعروں سےگونج اٹھا
جب ہم چکلالہ ہوائی اڈے پر اترےتو ہمارےاستقبال کیلئے صباحت صاحب، منور صاحب، ارشد صاحب اور سرفراز صاحب tarmac پر موجود تھےانہوں نے فرداً فرداً تمام crew کو شاباش دی اور ہمیں اسکوڈرن لےآئےجہاں سارا اسکواڈرن
👇21/24
ہمارے استقبال کیلئےموجود تھا
اسکواڈرن پہنچےتو ہمارا استقبال نعرۂ تکبیر پاکستان زندہ باد کےفلک شگاف نعروں سےکیاگیا
اتنے ماہ و سال کےبعد احساس ہوتاھے
ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ تکنیکی لحاظ سےانتہائی پیچیدہ اور سیاسی اعتبار سےشائد ملکی تاریخ کا ایک مشکل اور اہم ترین فیصلہ تھا
👇22/24
ہمیں اُسوقت کی سیاسی قیادت اور قابل فخر سائنسدانوں کی ستائش میں بخل سےکام نہیں لینا چاہئے
ذاتی طور پر میں اللّہ تعالی کا شکرگزار ہوں
مجھےپاکستانی تاریخ کی ایک اہم ترین پرواز اور انتہائی حساس مشن کو کامیابی سےپایۂ تکمیل تک پہنچانےکی سعادت نصیب ہوئی۔لیکن اس مشن کی کامیابی
👇23/24
فقط میری نہیں بلکہ میرے عملہ، نمبر 6 اسکاڈرن، نمبر 35 ونگ اور چکلالہ ائیر بیس(موجودہ نور خان ائیر بیس) کےتمام افراد کی کامیابی تھی۔اللّہ سبحان تعالٰی نےہم سب کو پاکستانی تاریخ کےاس اہم موڑ پر ہمیشہ کیطرح سرخرو کیا۔
گروپ کیپٹن (ر) محمد سہیل نعیم
End
فالو اور شیئر کریں🙏🙏🙏
Share this Scrolly Tale with your friends.
A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.