ملک بکوستا پر ایک بادشاہ تھا، اسنے اپنے وزیراعظم کو طلب کیا اور کہا، مابدولت ایک بڑا جنگی قلعہ بنانا چاہتے ہیں، مگر وزیر خزانہ کہتا ہے کہ آئی ایم ایف کا بڑا پریشر ہے اور خزانے میں پیسہ نہیں
اس پر وزیر اعظم بولا جہاں پناہ کا اقبال بلند ہو اور آپ کا سایہ رہتی دنیا تک
بادشاہ بولا اے وزیر با تدبیر، ملک میں پہلے ہی غربت ہے اور ترقیاتی انفراسٹرکچر کمزور ہے، زیادہ تر ملکی وسائل جنرلوں کی مراعات اور
وزیر اعظم بولا وہ مجھ پر چھوڑ دیں۔۔ وزیر اعظم قومی ٹی وی اور ریڈیو پر جلوہ افروز ہوا اور فرمایا، اے ہموطنو، بادشای ایک جنگی قلعہ بنانا چاہوے ہے تاکہ ملکی دفاع ناقابل تسخیر ہوجاوے۔۔
ہم کو پتہ ہے تم لوگ دو دو روٹی کھاتے ہو
وزیر اعظم نے بادشاہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ اعلان کردیتے ہیں کہ عوام ایک وقت
دوسرے دن بادشاہ محل کی بالکونی میں گیا ۔۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ دریا پر بنے پل پر لوگوں کی
اگلے دن بادشاہ دیکھتا ہے کہ وزیر اعظم نے پل پار کرنے کا ایک ہزار روپیہ
اس پر ایک بوڑھا کپکپاتے ہوئے آگے بڑھا اور یوں گویا ہوا
"کہو بابا جی کیا کہتے ہو؟"
بابا جی کپکپاتی آواز میں بولے حضور بھلے ٹیکس دس ہزار کردیں، مگر سویرے پل پر رش بہت ہوجاتا ہے لہذا چھتر مارنے والوں کی تعداد بڑھادی جاوے!