My Authors
Read all threads
آٹے کا بحران کیوں پیدا ہوا ایک فوڈ ڈائریکٹر وجہ بیان کرتے ہیں آپ کو یاد ہو گا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے 2008ءمیں مشترکہ حکومت بنائی تھی‘ اسحاق ڈار اس مشترکہ حکومت میں بھی وزیر خزانہ تھے‘ وزارتوں کا فیصلہ ہو گیا‘
1
اسحاق ڈار فائنل ڈائیلاگ کے لیے زرداری ہاﺅس چلے گئے‘ یہ میٹنگ کے بعد رخصت ہونے لگے تو آصف علی زرداری نے بلا لیا‘ ان کے پاس اس وقت ایک اجنبی شخص بیٹھا تھا‘ زرداری صاحب نے اسحاق ڈار کو پنجابی میں کہا‘ حکومت اس سال گندم 625 روپے من کی بجائے 900 روپے من خریدے گی‘
2
آپ وزارت سنبھالنے کے بعد یہ آرڈر جاری کر دیجیے گا۔
ڈار صاحب نے پریشانی کے عالم میں اجنبی کی طرف دیکھا‘ زرداری صاحب بولے ”آپ نہ گھبرائیں‘

یہ ہمارے دوست ہیں‘ لال جی‘ یہ پاکستان میں گندم کے سب سے بڑے بروکر ہیں“
3
ڈار صاحب گھبرا گئے اور آہستہ سے بولے ”لیکن سر ہم 900 روپے من گندم خرید کر ملوں کو کتنے میں فروخت کریں گے“ زرداری صاحب نے جواب دیا ”625 روپے میں‘ عام لوگوں کو گندم سستی ملنی چاہیے“ ڈار صاحب نے مسکرا کر جواب دیا ”سر لیکن حکومت 275 روپے کا نقصان کہاں سے برداشت کرے گی“
4
زرداری صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”ہم سبسڈی دیں گے اور یہ رقم اضافی نوٹ چھاپ کر پوری کر لیں گے“ ڈار صاحب نے کہا ”سر آپ یہ مجھے کہہ رہے ہیں‘ ٹھیک ہے لیکن کسی اور کو نہ کہیے گا‘ ہم پوری دنیا میں مذاق بن جائیں گے‘ اضافی نوٹ چھاپنے کا مطلب ہوتا ہے ہم ملک کو آگ لگا دیں“
5
اسحاق ڈار ڈیڑھ ماہ مشترکہ حکومت کے وزیر خزانہ رہے‘ یہ اس دوران گندم کی قیمت پر ڈٹے رہے مئی 2008ءمیں وفاق میں مشترکہ حکومت ختم ہوگئی جسکے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 29ستمبر2008ءکو گندم کی قیمت بڑھا کر 950روپے من کر دی اور یوں ایک رات میں لال جی نے اربوں روپے کی دیہاڑی لگالی
6
ملک اور لوگ دونوں کیلیے دن گزارنا مشکل ہو گیایہ گندم جیسے ایشو پر حکومتی بےحسی کا ایک واقعہ ہے ہم اگرتحقیق کریں تو پتا چلے گا ملک کی ہر حکومت میں یہ ایشو لال جی جیسے بروکر کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور یہ لوگ اربوں روپے بنا لیتے ہیں جب کہ عوام کے لقمے کم سے کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں7
‘یہ ایشو ہے کیا ؟ ہم اب اس طرف آتے ہیں‘ آپ پہلے دو حقائق نوٹ کر لیجیے‘ ہم زرعی ملک اور پانچ دریاﺅں کی زمین ہونے کے باوجود بنیادی خوراک درآمد کرنے والا ملک ہیں‘ پاکستان خوراک میں صرف چاول‘ چینی اور کینو برآمد کرتا ہے اور یہ بھی زیادہ مقدار میں نہیں ہوتے۔

8
ہم باقی ساری خوراک درآمد کرتے ہیں‘ ہم دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہیں لیکن آپ لطیفہ ملاحظہ کیجیے ہم دودھ‘ پنیر‘ مکھن اور ملک پاﺅڈر درآمد کرتے ہیں اور ہم کوکنگ آئل‘ سبزیاں‘ پھل‘ دالیں اور فیڈز کا را مٹیریل بھی امپورٹ کرتے ہیں چناں چہ ہم فوڈ کے ”نیٹ امپورٹر“ہیں
9
یعنی دنیا اگر ہمیں خوراک نہ دے تو ہم چند ماہ میں قحط کا شکار ہو جائیں گے‘ دوسرا پوری دنیا میں سب سے مہنگی گندم پاکستان میں فروخت ہوتی ہے‘ پاکستان میں 310 ڈالر فی ٹن گندم بکتی ہے جب کہ عالمی مارکیٹ میں مہنگی سے مہنگی گندم بھی190ڈالر فی ٹن ہے
10
ہم اب موجودہ بحران کی طرف آتے ہیں‘ پاکستان ہر سال 24 سے 25 ملین ٹن گندم پیدا کرتا ہے‘ پنجاب میں 19 ملین ‘ سندھ میں3.5 ملین ‘ بلوچستان میں9 لاکھ ٹن اور کے پی کے میں 11 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے‘ ہماری سالانہ ضرورت بھی کم و بیش اتنی ہے
11
‘ فصل تیار ہونے کے بعد ملک کی 80 فیصد گندم پرائیویٹ بیوپاری‘ آڑھتی اور مل اونرز خرید لیتے ہیں جبکہ 20 فیصد گندم حکومت خرید کر سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کر لیتی ہے‘ یہ 20 فیصد کوٹہ ایمرجنسی اور مارکیٹ میں توازن قائم کرنے کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے‘ کیوں؟
12
کیوں کہ اگر حکومت گندم ذخیرہ نہ کرے تو مارکیٹ لال جی جیسے مگر مچھوں کے ہاتھ میں چلی جائے اور یہ سفاک لوگ لوگوں کو بھوکا مرنے پر مجبور کر دیں چناںچہ حکومت بازار کی ڈیمانڈ دیکھ کر اپنی گندم مارکیٹ میں ڈالتی رہتی ہے تاکہ بحران بھی پیدا نہ ہو اور بیوپاری بھی من مانی نہ کر سکیں‘
13
یہ 20 فیصدکوٹہ بہت زیادہ ہے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت ملک میں گندم کی سب سے بڑی خریدار ہے‘یہ ہر سال مئی سے جولائی کے دوران 250 سے 300 ارب روپے کی گندم خریدتی ہے۔

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان میں بینکوں کا سب سے بڑا کاروبار گندم ہے‘
14
بینک گندم کی خریداری کے موسم میں صوبائی حکومتوں کو قرضے دیتے ہیں‘ حکومتیں ان قرضوں سے گندم خریدتی ہیں اور گندم مارکیٹ میں سپلائی کر کے بعد ازاں بینکوں کو قرضہ ادا کر دیتی ہیں‘ گندم کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا یہ سسٹم انگریز نے بنایا تھا اور یہ آج تک بڑی مہارت سے چل رہا ہے‘
15
انگریز کے دور سے صوبوں سے تجربہ کار افسر بلا کر وفاق میں لگائے جاتے تھے۔

یہ افسر کیوں کہ سارے سسٹم کو جانتے ہیں چناں چہ یہ صورت حال کو کنٹرول کر لیتے تھے‘ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں چودھری پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف روز فوڈ سیکرٹری سے ملاقات کرتے تھے‘ کیوں؟
16
کیوں کہ یہ جانتے تھے گندم کی سپلائی کا سسٹم پروفیسر ڈاکٹر جیسا ہوتا ہے جس طرح پروفیسر روز وارڈ کا معائنہ کرتا ہے‘ مریض کو خود دیکھتا ہے اور جونیئر ڈاکٹروں کو ہدایت دیتا ہے بالکل اسی طرح صوبوں اور وفاق کے سیکرٹری فوڈ روز صورت حال کا معائنہ کرتے ہیں۔

17
یہ مارکیٹ اور سٹاک کا معائنہ کرتے ہیں اور روز گندم ہولڈ یا ریلیز کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں اور صورت حال وزیراعظم اور وزیراعلیٰ دونوں کے نوٹس میں لاتے ہیں صوبائی حکومتیں پچھلے 72 برسوں سے تمام افسروں کو دائیں بائیں کرتی آ رہی ہیں لیکن یہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کو نہیں چھیڑتیں
18
فوڈ سیکرٹری بھی کم سے کم دو اڑھائی سال اپنی پوسٹ پر رہتا ہے اور ڈی جی اور ڈائریکٹرز بھی‘ یہ حکومتیں جانتی ہیں فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کے تبادلے کا نتیجہ صوبے میں قحط کی شکل میں نکلے گا۔

یہ سسٹم معمول کے مطابق چل رہا تھا لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی‘
19
یہ لوگ ناتجربہ کار تھے‘ عثمان بزدار اور محمود خان نے ضلعی حکومت تک نہیں چلائی تھی چناں چہ انہوں نے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو بھی اتھل پتھل کر دیا‘ وفاق میں آفس مینجمنٹ گروپ کے افسر ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی کو سیکرٹری فوڈ سیکورٹی لگا دیا گیا‘ یہ شریف اور ایمان دار افسر ہیں
20
لیکن انہوں نے کبھی فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں کام نہیں کیا ‘ یہ سسٹم کو سرے سے نہیں جانتے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 16 ماہ میں پانچ بار صوبائی سیکرٹری فوڈ تبدیل کر دیے‘
21
راولپنڈی کا ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ انتہائی اہم ہوتا ہے کیوں کہ بلتستان‘آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر موجود فوجی جوانوں کو آٹا بھی راولپنڈی سے سپلائی ہوتا ہے‘ عثمان بزدار نے اس پوسٹ سے تجربہ کار افسر ہٹا کر یہ پوزیشن 16 گریڈ کے ایک ٹیچرسلمان علی کے حوالے کر دی
22
سلمان علی پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہوں گے لیکن یہ فوڈ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں جب کہ پنجاب کے سیکرٹری فوڈ اس وقت ظفر نصر اللہ ہیں۔

ان کی شہرت بھی اچھی نہیں‘ میاں شہباز شریف نے دس سال کی مدت میں انہیں پنجاب میں گھسنے نہیں دیا تھا
23
جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں اس نازک پوسٹ پر لگا دیا‘ وزیراعظم بھی گندم کی خریداری کے سسٹم سے واقف نہیں ہیں چناں چہ انہوں نے یہ ایشو جہانگیر ترین کے حوالے کر دیا اور
24
فیڈرل سیکرٹری فوڈ سے لے کر پنجاب‘ کے پی اور بلوچستان کا فوڈ ڈیپارٹمنٹ براہ راست جہانگیر ترین کے کنٹرول میں چلا گیا‘ میٹنگ تک وزیراعظم کے ایڈوائزر شہزاد ارباب بلاتے ہیں اور جہانگیر ترین انکے دفتر میں صدر کرسی پر بیٹھ کر فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں اور سیکرٹری کو ہدایات جاری کر تے ہیں
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Shafiq Ur Rehman پتلی گر

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just three indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!