دو آدمی ایک سے دوسرے شہر کا سفر کر رہے تھے، ندی کنارے پہنچے تو وہ طغیانی کے سبب چڑھی ہوئی تھی اور قریب ہی ایک جوان اور خوبصورت خاتون ندی پار کرنے کے لیے مدد کی منتظر کھڑی دکھائی دی.
باقی سارا سفر دوسرا دوست غیر معمولی طور پر خاموش اور خفا رہا، کئی گھنٹوں کی ناراضگی اور خاموشی کے بعد آخر کو پہلے سے بولا:
یہ سن کر پہلے دوست نے بڑا خوبصورت جواب دیا وہ کہنے لگا:
میرے دوست!
کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں. قصے کے اختتام پر شمس تبریز نے کہا، وہ خود اپنے خوف و خدشے اور تعصب اپنے شانوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور اس بوجھ تلے کچلے جاتے ہیں.
#چالیس_چراغ_عشق_کے