یہ نرا جھوٹ ہے اور صرف اپنے غلط مذہب کو جس کی بنیادیں ہی ان احادیث پر استوار ہیں بچانے کیلئے بولا جاتا ہے جبکہ درحقیقت معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، حدیث قول رسول ھرگز نہیں ہے بلکہ قول منسوب الی الرسول ہے۔
صحیح بخاری کی شرح "فتح الباری" میں
المراد بالحديث في عرف الشرع ما يضاف إلى النبي صلى الله عليه وسلم وكأنه أريد به مقابلة القرآن لأنه قديم
شرعی اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال و اعمال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں، گویا
☆ جبکہ حدیث کی اصطلاحی تعریف، محدثین نے یوں بیان کی ہے:
حدیث سے مراد وہ اقوال ، اعمال اور تقریر (یعنی تصویب) ہیں جو
(بحوالہ : تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ، حافظ سیوطی۔)
حدیث ، تحدیث کا اسم ہے ، پھر اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو موسوم کیا گیا۔
(بحوالہ : علوم الحدیث و مصطلح ، ایوب بن موسیٰ ابوالبقا)
(بحوالہ : مقدمہ فتح الملہم ، شبیر احمد عثمانی)
پس تم سوچا کرو۔