پہلی دفعہ ایمسٹرڈیم دیکھا جب بچے کی ولدیت کا خانہ خالی چھوڑا یا والدہ کا نام دیکھا۔ میں نے سوچا شائد دماغ کھل گئے ہیں۔ پھر پتا چلا سوشل ویلفئیر فراڈ کے لئے شادی نہیں کی جاتی نا رجسٹر ہوتی۔ لڑکیاں بطور سنگل مدر رجسٹر ہوتی
کچھ جگہوں پر تو عام دیکھنے والے کو پتا نہیں چلتا کہ کیا چکر کیونکہ اس صورت میں ماں کا “لاسٹ نیم/فیملی نیم “ بچے کا “فیملی نیم”ہوتا ہے۔
ایسے بچے سرکار کے کاغذوں میں نا معلوم باپ والے گنے جاتے ہیں۔
یورپی معاشرے میں تو نا معاشرے کو فرق پڑتا نا ریاست کو اگر والد کا نام والدہ نا دینا ہو یا نا معلوم ہے۔
مثال کے طور پر والدہ کا آخری نام
رمیضہ فاطمہ تو ایسے سرکاری طور پر نامعلوم باپ والے بیٹے کے نام کے آخر میں وقاص فاطمہ لگا ہو گا۔
والدہ کا نام نسیم کوثر تو لڑکا وقاص کوثر
اکثریت ایسے ناموں کے پیچھے سوشل اور کاغذوں کا فراڈ ہے جو پاکستانیوں نے کیا ہے۔
مثال لے طور پر لڑکی یورپ آئی، کاغذ لینے کے لئے نکاح کیا، بچہ کیا ، کاغذ لے لئے مگر بندے کی پہلی شرط کہ میرا نام نہیں ہو گا تا کہ
کچھ کیسز میں ہوتا ہے کہ باپ نے فراڈ کیا۔
باپ یورپ آیا کاغذوں کے لئے کسی گوری سے شادی کر لی۔
کل کو ویزٹ ویزہ پر پاکستانی بیوی کو لے آیا ، اس سے بچہ پیدا ہو تا اپنا نام نہیں دے سکتا۔ اس صورت میں بچے کو والدہ کا آخری نام اور ولدیت نامعلوم ہو گی۔
کہیں ایسا ہوا کہ والدہ اور والد بہت پڑھے لکھے فیمنسٹ یا پروفیسر ٹائپ ہوں اس اس میں بھی چوائس ہو سکتی کہ والدہ کا لاسٹ نیم دیا جائے مگر میں نے ایسا کیس آج تک دیکھا نہیں۔
عمومی طور پر فراڈئے ماں باپ ہیں جو بچے کی ولدیت نامعلوم لکھواتے۔
بی بی، فاطمہ، کوثر ، سلیمہ یا کچھ ہے۔
مگر یورپ کا نظام ایسا کہ اس کے بعد اب اس بچے کو جس کا پیدائشی زنانہ نام اسکی اولاد سب کا ووہی فیملی/ لاسٹ نیم چلے گا ۔
یا کوئی ایسا کیس ہو کہ بندہ پیسے لگا کر وکیل کر کہ اپنا نام بدل لے۔