My Authors
Read all threads
انگریز نے جب برِصغیر پر تسلط کیا، مسلمان وںپر بہت زیادہ مظالم برپا کیے، خصوصاً اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی کے بعد اس نے مسلمانوں کے نصابِ تعلیم کو ختم کرکے لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظامِ تعلیم مسلط کیا، جس سے ان کا مقصود ایسے لوگوں کو تیار کرنا تھا 👇
جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندی ہوں، لیکن فکروسوچ کے اعتبار سے فرنگی ہوں 👇
جو اُن کے دفتروں میں غلام رہ کر ان کی نوکری بجالاسکیں۔ انگریز کے تسلُّط سے پہلے ذریعۂ تعلیم، حکومتی اور دفتری زبانیں عربی، فارسی اور اردو تھیں، انگریز نے ان زبانوں کو بند کرکے ذریعۂ تعلیم اور دفتری زبان انگریزی مقرر کردی، جس سے تعلیم یافتہ مسلمان ناخواندہ شمار کیے گئ👇
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ ہماری اشرافیہ، بیوروکریسی اور مقتدر قوتوں کا ذہن اس طرح بنادیا گیا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بات یا کوئی طور طریقہ جو اہلِ مغرب سے منسوب ہو‘ وہ چاہے کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو وہ تو قابلِ قبول ہے، لیکن جو بات مسلمانوں سے نسبت رکھتی ہو اور 👇
قرآن وسنت سے منسوب ہو‘ وہ چاہے کتنا ہی واضح، بامقصد، فائدہ مند اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہو‘ اس کا انکار کردیا جائے اور اُسے قبول نہ کیا جائے۔👇
ضیاء الحق جنرل۔مشرف کے بعد
اب تحریکِ انصاف کی گورنمنٹ اس پورے پاکستان میں یکساں نصابِ تعلیم کے عنوان سے نیا جال لے کر آگئی ہے۔ اور مدارس کو اس جال میں پھانسنے کے لیے معاہدات وغیرہ بھی کررہی ہے۔
الغرض حکومت اور مقتدر قوتوں کا بیرونی دباؤ کی بناپر برابر ایک ہی اصرار ہے کہ کسی طرح دینی مدارس کا نظام اور نصاب ختم کیا جائے اور ان کو گورنمنٹ کے ماتحت لایاجائے اور پھر مدارس کا وہ حال کیا جائے جو آج گورنمنٹ اسکولز وکالجوں کا ہے۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں، بلکہ👇
اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کراچی ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۰ء میں ممتاز عالمی جریدہ ’’ڈیفنس اینڈ فارن افئیر اسٹیٹجک پالیسی‘‘ کے حوالہ سے ایک غیرمسلم صحافی ’’گریگری آرکوپلے‘‘ کا مضمون بعنوان ’’پاکستان مشرف کے دور میں ‘‘ چھپا تھا، وہ مضمون تو طویل ہے، لیکن اس میں ایک بات تو یہ لکھی تھی کہ:👇
’’ فوجی حکومت میں اس بارہ میں اتفاقِ رائے پیدا ہورہا ہے کہ ان مدرسوں کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟ اس بات پر عمومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ ’’غیرسود مند اور خطرناک‘‘ ہیں اور دوسری بات یہ لکھی ہے کہ مدرسوں سے نمٹنے کا عمل ایسے مضامین پڑھانے پر زور دینے سے شروع ہوگا 👇
جن مضامین کے پڑھنے سے بچوں میں حصولِ روزگار کی اہلیت ولیاقت پیدا ہوگی۔۔۔۔۔ حکومت اس بات پر زور دے گی کہ مدرسوں کے بنیادی نصاب میں مفید تربیت اور روایتی مضامین کو بھی شامل کیا جائے۔ 👇
تحریکِ انصاف کی حکومت نے ’’اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا اور اس کے تحت حکومت اور ’’اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کی مشاورت سے ایک نصاب مرتب کرنے کا معاہدہ ہوا ، حکومت نے اس معاہدہ سے انحراف کرتے ہوئے یک طرفہ نصاب مرتب کیا اور 👇
وہ نصاب دو این جی اوز کی معاونت، مشاورت اور ان کی خواہشات کے مطابق بنایا، جس کا ماہرِ تعلیم پروفیسر ملک محمد حسین نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: حال ہی میں مرکزی وزارتِ تعلیم نے پرائمری جماعتوں کے مجوزہ نصاب کا مسودہ جاری کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ 👇
نصابی تجاویز میں تعلیمی اقدار یعنی ویلیوایجوکیشن (V a lue Education) کے نام سے ایک علیحدہ نصابی کتابچہ دیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات پہلی سے بارہویں جماعت تک دی گئی ہیں۔ حقیقتاً ویلیو ایجوکیشن کا یہ کتابچہ حکومت کی نصابی پالیسی کی بنیاد ہے۔ اور👇
دعویٰ کیا گیا ہے کہ مجوزہ ویلیوز(Value) سارے نصاب اور سارے مضامین میں اساسی فکر کے طور پر نصابی تعلیم میں پھیلی ہوں گی اور یہی اقدار طلبہ کی شخصیت کا حصہ بنائی جائیں گی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔ ویلیو ایجوکیشن کی تفصیلات دیکھ کر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نصاب کی تشکیل 👇
ہیومنزم (Humanism) کے فلسفے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ ویلیو ایجوکیشن میں جن ویلیوز کو طلبہ کی شخصیت اور ان کی فکر وخیال میں جاگزیں کرنے کا عزم کیا گیا ہے، وہ روٹ ویلیوز یا اساسی اقدار حسب ذیل ہیں:
1.Compassion and Care
2.Integrity and Honesty
3.Responsible Citizenship
آگے لکھا ہے👇
ہمارے مقتدر حلقے ہیومنزم کے فلسفۂ حیات کو اور ہیومنزم کی اقدار کو ہماری تعلیم کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں، جب کہ اس کے مقابلے میں:
۱:- ہمارا نظامِ حیات
۲:-ہمارا ورلڈ ویو
۳:-اور ہمارا آئین ومعاشرتی نظام👇
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بالکل مختلف ذہن اس نصابی کام پر حاوی ہے جو ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے دین، اپنے کلچر، اپنی روایات اور اپنے تصورِ کائنات سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ اگر ہم پچھلے چند سالوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ👇
مغربی این جی اوز اور خاص طور پر یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم (US Commission on international Religious Freedom) یعنی ’’امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی‘‘ نے ہماری تعلیمی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مذکورہ امریکی کمیشن نے ۲۰۱۵ء میں جو ہماری نصابی اور 👇
درسی کتب پر تحقیقات کروائیں، ان کے مطابق تقریباً ۷۰ موضوعات کو قابلِ اعتراض گردانا گیا۔ یہ سب کے سب موضوعات مذہبی موضوعات ہیں، نیز جن اقدار کو ہمارے نصاب اور درسی کتب میں نافذ کرنے کی سفارش کی گئی، وہ سارے کے سارے وہی ہیں جو 👇
ہم نے ان کی ویلیو ایجوکیشن کے تحت گنوائے ہیں۔ مذکورہ امریکی کمیشن کی رپورٹوں میں جہاد کو خصوصی نشانہ بنایا گیا ، نیز احمدیوں کے متعلق اعتراض اٹھائے گئے۔ ہمارے زیر نصابی خاکے میں پوری اطاعت گزاری کے ساتھ امریکی سفارشات پر عمل کیا گیا ہے۔ 👇
آپ پہلی سے پانچویں تک پورے نصاب کو چھان لیں ، آپ کو جہاد اور غزوات کا کوئی نشان ہی نہیں ملے گا۔👇
حاصلِ مطالعہ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ:پہلی سے پانچویں تک کے نصابی کتابچوں کو اور خاص طور پر ویلیو ایجوکیشن کے حصہ کو دیکھ کر نظر آتا ہے کہ:
۱:- یہ نصاب مغربی تہذیب اور کلچر کے فروغ کے لیے بنایا گیا ہے۔
۲:- نظامِ اقدار جس پر یہ مبنی ہے، وہ ہیومنزم کی اقدار ہیں اور 👇
اسلامی تہذیب وتمدن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
۳:- نصابی خاکہ میں جو تصورات اور لوازمہ تجویز کیا گیا ہے، وہ بچوں کی ضروریات، معاشرے کی ضروریات اور بچوں کے ذہنی لیول کے مطابق نہیں ہیں۔
۴:- مغربی/ امریکی اسکولوں کے نصابات کی بھونڈی نقل ہے 👇
جو ہمارے نظامِ تعلیم میں جگہ نہیں پاسکے گا۔
۵:- نصاب میں اُفقی اور عمودی ربط کا خیال نہیں رکھا گیا۔
۶:-یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈیم کی سفارشات بلکہ ڈکٹیشن پر عمل کیا گیا ہے۔ اسلامی اقدار، اسلامی فکر اور خصوصاً جہاد کے تصور کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ 
👇
۷:- اردو اور انگریزی کا نصاب بچوں میں مطلوبہ لسانی صلاحیتیں پیدا نہیں کرسکے گا، خصوصاً متوسط اور نچلے متوسط گھرانوں کے بچے۔ دیہاتی اسکولوں کے بچے اور اساتذہ اس نصاب کے تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکیں گے۔👇
حکومت کی بدنیتی اس میں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم اگر پورے ملک کے لیے ہے تو پرائیویٹ اسکول بھی اس میں شامل ہونے چاہئیں، جب کہ آغا خان فاؤنڈیشن اور بیکن ہاؤس اسکول اور دانش کدہ جیسے ادارے اس میں شامل نہیں۔ صرف ان سرکاری اسکولوں کو اس میں شامل کیا ہے، جہاں👇
پہلے تو بچے پڑھنے جاتے ہی نہیں، اگر جاتے ہیں تو صرف ان غرباء کے بچے ہوتے ہیں جن کے پاس پرائیویٹ اسکولوں یا معیاری اسکولوں میں پڑھانے کی سکت نہیں۔ تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ صرف ’’مدارسِ دینیہ‘‘ کو اس شکنجہ میں کسا جائے گا، باقی سب آزاد رہیں گے۔👇
اسی طرح اس نصاب کی پشت پر دو غیر ملکی ادارے ’’واٹر ایڈ‘‘ نام کی برطانوی این جی او ہے ، جس کی عملی سرگرمیاں تعلیمی شعبوں، بالخصوص نصاب کی تیاری میں مسلسل جاری ہیں، جب کہ دوسری تنظیم ایک امریکی ادارہ ’’یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم‘‘ ہے، 👇
جس کے کارندے اس سارے ہوم ورک میں سب سے زیادہ متحرک بتائے جاتے ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یکساں نصابِ تعلیم کی تیاری بیرونی ایجنڈے کی تکمیل اور غیرملکی دباؤ کے ماتحت ہے، جس کے نقصان دہ ہونے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔

👇
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی اور خواہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اولین فرصت میں اس بیرونی ایجنڈے کے ماتحت بننے والے نصاب کو یکسرمسترد کردیں۔
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Muddassar Rashid

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just three indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!