My Authors
Read all threads
فاتح مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا شمار دھاۃ العرب میں ہوتا ہے، یعنی عرب کے چوٹی کے ذہین اور ہوشیار لوگوں میں، جن کی فطانت و فراست کا تذکرہ تاریخ میں ہمیشہ امتیازی حیثیت سے ہوتا رہا ہے۔ وہ ایک تجربہ کار جرنیل، کامیاب منتظم، مدبر سیاست کار، اور 👇
انسانی اجتماعیت کے مزاج و نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے جس پر ان کی زندگی کے متعدد واقعات گواہ ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے جس سے ان کی دور اندیشی اور پیش بینی کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

مسلم شریف کی روایت ہے کہ 👇
حضرت عمرو بن العاصؓ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشیؓ بیٹھے ہوئے تھے جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے تقوم الساعة والروم أكثر الناس کہ قیامت سے پہلے رومی لوگوں میں کثرت سے پھیل جائیں گے۔ 👇
روم اس دور میں عیسائی سلطنت کا پایۂ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے عیسائی حکمران مراد ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ مستورد قرشیؓ نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہؐ سے سنا ہے۔ 👇
حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان رومیوں میں چار خصلتیں موجود ہوں گی (جن کی وجہ سے وہ انسانی سوسائٹی پر غالب آئیں گے)۔

إنهم لأحلم الناس عند فتنة۔ پہلی یہ کہ وہ فتنے اور آزمائش کے وقت دوسرے لوگوں سے زیادہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں گے،

👇
وأسرعهم إفاقة بعد مصيبة۔ دوسری یہ کہ وہ مصیبت گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں دوسرے لوگوں سے تیز ہوں گے،

وأوشكهم كرة بعد فرة۔ تیسری یہ کہ وہ شکست کے بعد دوبارہ جلدی حملہ آور ہونے والے ہوں گے،

وخيرهم لمسكين ويتيم وضعيف۔ چوتھی👇
یہ کہ وہ اپنے یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے لیے اچھے لوگ ثابت ہوں گے،
اتنا کہہ کر حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا کہ وخامسۃ حسنۃ جمیلۃ کہ ان میں ایک اور پانچویں خصلت بھی ہوگی جو اچھی اور خوب ہوگی

وأمنعهم من ظلم الملوك۔ کہ 👇
وہ لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنے میں پیش پیش ہوں گے۔

اس ارشاد کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیے اور اندازہ کیجیے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کس طرح ہمارے آج کے دور کا نقشہ چودہ سو برس قبل جناب رسول اللہؐ کی ایک پیش گوئی کی وضاحت کرتے ہوئے کھینچ دیا تھا۔ 👇
انہوں نے دراصل قوموں کے مزاج و نفسیات کو سمجھتے ہوئے اقوام عالم کی برادری میں برتری اور بالادستی کی منزل تک پہنچانے والے اخلاق اور خصلتوں کی وضاحت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ 👇
جو قوم بردباری، غریب پروری، اور عدل و انصاف کے اوصاف اپنا لیتی ہے اسے انسانی برادری میں برتری حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اقوام کی برادری میں قیادت کا تخت سنبھال لیتی ہے۔ یہ پانچ اوصاف جن کا ذکر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کیا ہے انسانیت کے اعلیٰ اخلاق ہیں جو آسمانی تعلیمات کی بنیاد ہیں 👇
اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے وحی الٰہی کے ذریعہ نسل انسانی کے لیے موصول ہونے والی ان خدائی ہدایات کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔
آج مغرب سے ہمیں شکوہ ہے کہ مغرب ہمارے خلاف صف آرا ہے اور ہمیں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھ کر زیر کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔ مغرب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ہم پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے خود ساختہ فلسفے کے ہتھیار سے 👇
ہماری اخلاقی، دینی، اور معاشرتی اقدار و روایات کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہے۔ یہ شکایتیں بجا ہیں لیکن ہمیں حضرت عمرو بن العاصؓ کے مذکورہ ارشاد کے حوالہ سے مغرب کے ساتھ اپنا تقابل اس حوالہ سے بھی کرلینا چاہیے 👇
مصیبت و مشکل کے وقت مغربی اقوام اور ہمارے طرز عمل میں کیا فرق ہوتا ہے؟

مصیبت کے گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں ہم کتنا وقت لیتے ہیں؟

شکست کے بعد اس کی تلافی کرنے یا ماتم کرتے رہنے میں سے ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں؟

معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کے لیے 👇
ہمارے پاس کونسا نظام موجود ہے؟

اور عام لوگوں کو حکام کے مظالم اور ریاستی جبر سے بچانے کے لیے ہمارا ’’معاشرتی شعور‘‘ کس مرحلہ میں ہے؟

انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا گزشتہ صدی کا ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ شکایت ضرور سامنے آتی ہے کہ 👇
مسلم ممالک کے بارے میں مغرب دوہرا معیار رکھتا ہے اور جن ممالک کی حکومتیں مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہیں وہاں کے عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کے معاملہ میں مغرب نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر 👇
عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو آج مغربی ممالک دنیا بھر کے مختلف خطوں کی حکومتوں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بھی ہیں اور معاشرے کے نادار و معذور افراد کے لیے اگر زندگی کی سب سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں تو وہ بھی انہی مغربی ممالک میں ہیں۔
اس پس منظر میں حضرت عمرو بن العاصؓ کے اس ارشاد گرامی میں جہاں قوموں کی قائدانہ صلاحیتوں اور اوصاف کی نشاندہی ملتی ہے وہاں ہمارے لیے یہ سبق بھی ہے کہ ہمارا بھولا ہوا سبق دوسری قوموں نے سیکھ کر اقوام کی برادری میں چودھراہٹ حاصل کر لی ہے اور 👇
ہم ابھی تک ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے کی مستی میں گم ہیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی ثقافت کے کی جدوجہد کرنے والے مراکز، شخصیات اور اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی شاہراہ یہی ہے۔
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Muddassar Rashid

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just three indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!