My Authors
Read all threads
حمید الدین فراہی   

 یہ ۱۹۰۰ء کا ذکر ہے، ہندوستان پر برطانوی سامراج کی دوسری صدی چل رہی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے مشہور ذہین اور شاطر دماغ یہودی ’’لارڈ کرزن‘‘ تھا۔ ان صاحب کو مسلمانوں سے خدا واسطے کابیر اور صہیونی مقاصد کی تکمیل کا شیطانی شغف تھا۔ 👇
انگریز نے برصغیر کی زمین پاؤں تلے سے کھسکتے دیکھ لی تھی، سونے کی ہندوستانی چڑیا کے پروہ نوچ چکا تھا، اب مشرق وسطیٰ میں تیل کی دریافت اور ارضِ اسلام کو اپنے گماشتوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ در پیش تھا۔ لارڈ کرزن کو انگریز سرکار کی جانب سے حکم ملا تھا کہ 👇
وہ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں میں مقیم عرب سرداروں سے ملاقات کرے اور مطلب کے لوگوںکی فہرست بنائے۔ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں سے مراد: کویت، سعودی عرب کا تیل سے لبالب مشرقی حصہ جو اس وقت آل سعود کے زیرنگیں تھا، نیز بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات میں شامل سات مختلف ریاستیں اور عمان ہے👇
برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ ریت پر لکیریں کھینچ کر ’’جتنا کم اتنا لذیذ‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جس طرح کیک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں، اسی طرح ’’جتنا مالدار اتنا چھوٹا‘‘ کے اصول پر عرب ریاستیں اپنے دوست عرب سرداروں میں تقسیم کرچکے تھے۔👇
اب اس تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فیلڈورک کی ضرورت تھی، اور لارڈ کرزن اپنے مخصوص یہودی پس منظر کے سبب یہ کام بخوبی کرسکتا تھا👇
لارڈ کرزن خلیج عرب کے خفیہ دورے پر فوری روانہ ہونا چاہتا تھا او ر اُسے کسی معتمد اور راز دار عربی ترجمان کی ضرورت تھی، برصغیر میں عربی اس وقت دو جگہ تھی، یا تو دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ دینی مدارس یا پھر علی گڑھ کا شعبہ عربی۔ اول الذکر سے تو ظاہر ہے 👇
کوئی ایسا ٹاؤٹ ملنا دشوار تھا، لارڈکرزن کی نظر انتخاب اسی طرح کی مشکلات کے حل کے لیے قائم کیے گئے ادارہ علی گڑھ پر پڑی، وہاں ایک مانگو تو چار ملتے تھے۔ مسئلہ چونکہ وائسرائے ہند کے ساتھ خفیہ ترین دورے پر جانے کا تھا، جس کے مقاصد اور کارروائی کو انتہائی خفیہ قرار دیا گیا تھا، 👇
ا س لیے کسی معتمد ترین شخص کی ضرورت تھی جو عقل کا کورا اور ضمیر کا ماراہوا ہو۔ سفارشوں پر سفارشیں اور عرضیوں پر عرضیاں چل رہی تھیں کہ خفیہ ہاتھ نے کارروائی دکھائی اور علی گڑھ کے سر پرستانِ اعلیٰ کی جانب سے ایک نوجوان فاضل کا انتخاب کرلیا گیا۔ 👇
لارڈکرزن صاحب کو ان کی عربی دانی سے زیادہ سرکار سے وفاداری کی غیر مشروط یقین دہانی کرادی گئی اور یوں یہ عجمی عربی دان مسلمان ہوکر بھی اس تاریخی سفر پر انگریز وائسراے کا خادم اور ترجمان بننے پر راضی ہوگیا، جس کے نتیجے میں 👇
آج خلیجی ریاستوں میں استعمار کے مفادات کے محافظ حکمران پنجے گاڑے بیٹھے ہیں اور امریکی وبرطانوی افواج کو تحفظ اور خدمات فراہم کررہے ہیں۔     یہ نوجوان فاضل حمید الدین فراہی تھے جو اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ایک گاؤں ’’فراہا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ 👇
موصوف مشہور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی کالج میں عربی پڑھاتے رہے، لارڈکرزن کی ہم راہی کے لیے ان کے انتخاب میں علی گڑھ میں موجود ایک جرمنی پروفیسر ’’جوزف ہوروز‘‘ کی سفارش کا بڑا دخل تھا جو یہودی النسل تھا اورموصوف پر اس کی خاص نظر تھی۔ موصوف نے اس سے عبرانی زبان سیکھی تھی، 👇
تاکہ تورات کا مطالعہ اس کی اصل زبان میں کرسکیں۔     لارڈکرزن صاحب جناب فراہی کی صلاحیت اور کارکردگی سے بہت خوش تھے، چنانچہ واپسی پر انہیں انگریزوں کی منظور نظر ریاست حیدر آباد میں سب سے بڑے سرکاری مدرسہ میں اعلیٰ مشاہرے پر رکھ لیاگیا اور موصوف نے وہاں سے اس کام کا آغازکیا 👇
جو قسمت کامارا یہودیوں کا پروردہ ہر وہ شخص کرتا ہے جسے عربی آتی ہو۔ انہوں نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی ’’مخصوص انداز‘‘ میں خدمت کے لیے وقف کرلیا۔ مخصوص اندازسے مراد یہ ہے کہ تمام مفسرین سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کی جائے کہ قرآن کریم کو محض لغت کی مدد سے سمجھا جائے۔ 👇
یہ لغت پرست مفسرین دراصل اس راستے سے قرآنی آیات کو وہ معنی پہنانا چاہتے تھے جس کی ان کو ضرورت محسوس ہو، اگرچہ دوسری آیات یا احادیث، مفسرین صحابہؓ وتابعینؒ کے اقوال اس کی قطعی نفی کرتے ہوں۔ درحقیقت قرآن سے ان حضرات کا تعلق‘ انکارِ حدیث پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتا ہے، 👇
جیساکہ تمام منکرین حدیث کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے اس عیب کو چھپانے کے لیے قرآن کریم سے بڑھ چڑھ کر تعلق اور شغف کا اظہار کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔ 👇
واضح رہے کہ یہ وہی حیدر آباد ہے جہاں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ جیسے فاضل شخص کو محض اس لیے ملازت نہ مل سکی کہ وہ مغرب دشمن شاعری کے مرتکب تھے،👇
لیکن فراہی صاحب پر لارڈکرزن کا دست کرم تھا کہ حیدر آباد کی آغوش ان کے لیے خود بخود واہو گئی اور انہیں ایک بڑے ’’علمی منصوبے‘‘ کے لیے منتخب کرلیا گیا۔     اس منصوبے نے جو برگ وبار لائے انہیں مسلمانانِ برصغیر بالخصوص آج کے دور کے اہالیان پاکستان خوب خوب بھگت رہے ہیں۔ 👇
فراہی صاحب نے ’’تفسیر نظام القرآن‘‘ لکھی جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کتب خانوں میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ علامہ شبلی نعمانیؒ، فراہی صاحب کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہوگئے تھے، جب ان کی بعض غیر مطبوعہ تحاریر ’’دار المصنفین‘‘ میں شائع ہونے کے لیے آئیں، 👇
لیکن ان کی طباعت سے انکار کردیا گیا کہ زبردست فتنہ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ فراہی صاحب اپنے پیچھے چند شاگرد، چند کتابیں اور بے شمار شکوک وشبہات چھوڑ کر ۱۹۳۰ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے
مولانا فضل محمد یوسف زئی کے مضمون سے
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Muddassar Rashid

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!