یہ 1918ءکاذکرہے۔
میں قبلہ والدصاحب کےساتھ امرتسر گیا۔میں ایک چھوٹےسےگاؤں کارہنے والا،جہاں نہ بلندعمارات، نہ مصفا سڑکیں،نہ کاریں،نہ بجلی کےقمقمے اورنہ اس وضع کی دکانیں، دیکھ کر دنگ رہ گیا۔لاکھوں کےسامان سے سجی ہوئی دکانیں،اور۔۔۔+1/15
"کیامسلمان ہرجگہ اسی طرح زندگی بسرکررہےہیں؟
والد صاحب، ہاں!
میں،اللہ نےمسلمان کوبھی ہندوکی طرح دوہاتھ، دپاؤں اورایک سرعطاکیا ہےتوپھرکیا وجہ ہےکہ ہندوتوزندگی کے مزےلوٹ رہاہےاورمسلمان ہرجگہ حیوان سےبدترزندگی بسرکررہا ہے۔۔۔+4/15
میں،اگر دنیا واقعی مردار ہے تو آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اورمال تجارت خریدنےکےلئےامرت سرتک کیوں آئے ؟ ۔۔+5/15
والد صاحب بیٹا! بزرگوں سےبحث کرنا سعادت مندی نہیں۔جوکچھ میں نے تمھیں بتایاہےوہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔۔۔+6/15
حدیث کانام سن کر میں ڈرگیااوربحث بندکردی سفرسےواپس آکرمیں نےگاؤں کےمُلاسےاپنےشبہات کااظہارکیا۔اس نےبھی وہی جواب دیا۔میرے دل میں اس معمےکوحل کرنےکی تڑپ پیداہوئی۔لیکن
میرےقلب ونظرپہ تقلید کے پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔۔+7/15
میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کےلئےمختلف علماء وصوفیاکےہاں رہا۔درس نظامی کی تکمیل کی۔ سینکڑوں واعظین کےوعظ سنے۔ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں۔اور بالآخر مجھےیقین ہوگیا کہ اسلام رائج کاما حاصل یہ ہے۔۔+8/15
۔۔ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا
مختلف رسوم مثلاًجمعرات،چہلم، گیارہویں وغیرہ کوباقاعدگی سےادا کرنا
قرآن کی عبارت پڑھنا،اللہ کےذکرکو سب سےبڑا عمل سمجھنا،قرآن اور،
درود کےختم کرانا،۔۔+9/15
نجات کےلئےکسی مرشدکی بیعت کرنا
مردوں سےمرادیں مانگنا
مزاروں پرسجدےکرنا،غلیظ لباس کو پیغمبری لباس سمجھنا
سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا،تعویذوں اور منتروں کو مشکل کشا سمجھنا،آنحضرت کو عالم الغیب نیز حاضر و ناظر قرار دینا۔۔+10/15