My Authors
Read all threads
حضرت خدیجہ {س} - قسط نمبر 2

حضرت خدیجہ {س} عام طور پر رات کی تاریکی میں اپنی سہلیوں کے ھمراہ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے جاتی تھیں- ایک رات کو جب طواف کعبہ کے لئے گئی تھیں، طواف بجالانے کے بعد کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑی ھوکر اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے میں مشغول ھوئیں 1/79
اور نصف شب کو گھر لوٹیں- اس وقت سب بچے سوئے ھوئے تھے، چونکہ حضرت خدیجہ {س} اس رات کو کافی تھک چکی تھیں، اس لئے کمرے کے ایک کونے میں جاکر لیٹ گئیں اور فوراً ان پر نیند طاری ھو گئی-

انھوں نے خواب میں سورج کو انسان کی شکل میں دیکھا کہ مکہ کے آسمان سے طلوع ہو کر رفتہ رفتہ ان 2/79
کے گھر کی طرف آرہا ہے- جب سورج ان کے گھر میں پہنچا، تو وہاں پر رک کر اس نے تمام دنیا میں نور پھیلا دیا اور لوگ جوق در جوق اس سورج کو دیکھنے کے لئے ان کے گھر آرہے تھے-

حضرت خدیجہ {س} تعجب اور حیرت کے عالم میں نیند سے بیدار ھوئیں اور اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالی، انھوں نے سوئے 3/79
ھوئے اپنے بچوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا- پھر وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے بعد چند قدم چلیں اور واپس لوٹ کر پھر لیٹ گئیں، لیکن اب انھیں نیند نہیں آئی اور چند لمحے پہلے دیکھا ھوا خواب ان کے ذہن پر مسلسل چھایا رہا-

حضرت خدیجہ {س} بخوبی جانتی تھیں کہ ان کا یہ خواب ایک 4/79
معمولی خواب نہیں ہے، اس لئے انھوں نے اس سلسلہ میں گھنٹوں غور و خوض کیا، لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچیں اور دوسری جانب سے اس سلسلہ میں غور و فکر کرنا ان کے لئے نیند آنے میں رکاوٹ بن رہا تھا- اس طرح ، ان کا یہ خواب، یعنی سورج کا انسان کی شکل میں آنا اور ان کے گھر میں داخل 5/79
ھونا اور لوگوں کا جوق در جوق اسے دیکھنے کے لئے ان کے گھر آنا، پو پھٹنے تک ان کے ذہن پر چھایا رہا- وہ صبح ھونے کا انتظار کر رہی تھیں، تاکہ اپنے چچیرے بھائ ورقہ بن نوفل کے پاس جاکر اپنے اس خواب کو ان کے سامنے بیان کریں- شائد اس کی کوئی تعبیر ھو- صبح اور سورج طلوع ھونے کے بعد 6/79
وہ فوراً اپنے چچازاد بھائی، ورقہ بن نوفل کے گھر گئیں اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، اسے من وعن ان کے سامنے بیان کیا-
جوں ہی ان کی بات ختم ھوئی، ورقہ بن نوفل کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رونما ھوئی اور انھوں نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" مبارک ھو تم پر اے میری 7/79
چچازاد بہن؛ اگر تمھارا خواب صادق ہوا تو نور نبوت {ص} تمھارے گھر آئے گا اور تمھارے گھر کا نور تمام عالم کو منور کرے گا-"

حضرت خدیجہ {س} گہری سوچ میں پڑگئیں کہ نور نبوت کیسے ان کے گھر آئے گا اور ان کا گھر کیسے تمام دنیا کے لئے نور کا مرکز بنے گا؟ حضرت خدیجہ {س} ایک مدت تک 8/79
اس خواب کے بارے میں غور و فکر میں مشغول تھیں اور اس کی تعبیر کا انتظار کر رہی تھیں-

اس دوران جو بھی شخص ان کی خواستگاری کے لئے آتا تھا، ان کے سامنے وہ نورانی سورج مجسم ھوتا تھا، جسے انھوں نے خواب میں دیکھا تھا اور جب دیکھتی تھیں کہ خواستگاری کرنے والا شخص ان کے خواب سے 9/79
کوئی شباہت نہیں رکھتا ہے تو اس کا احترام کے ساتھ انکار کردیتی تھیں۔

مکہ کی عورتیں ایک رسم کے مطابق قدیم زمانہ سے ہر سال، ماہ رجب کی ایک رات کو کعبہ کے پاس جمع ھوتی تھیں اور جشن و سرود کی ایک محفل منعقد کرتی تھیں اور اس محفل میں اہل کتاب میں سے ایک دانشور کو تقریر کرنے کی 10/79
دعوت دی جاتی تھی-

ایک رات کو ایسی ہی ایک محفل منعقد ہو رہی تھی- جب حضرت خدیجہ {س} اس محفل میں پہنچیں، اس وقت ایک یہودی عالم نے تازہ اپنی تقریر شروع کی تھی- اس کی اس تقریر کے دوران اچانک حضرت محمد {ص} کعبہ کے پاس سے گزرے- تقریر کرنے والے اہل کتاب کی نظر جوں ہی آنحضرت {ص} 11/79
پر پڑی، تو اس نے اپنی تقریر کو روک کر عورتوں سے یوں خطاب کیا:

" اے قریش کی خواتین؛ جو جوان ابھی ابھی کعبہ کے پاس سے گزرا، وہ مستقبل میں پیغمبر آخر الزمان {ص} ھوگا، آپ میں سے جو بھی اس کی شریک حیات بن سکتی ھو، اس میں تاخیر نہ کرنا-"

اس اہل کتاب دانشور کے کلام کو سن کر 12/79
خواتین میں ہلچل مچ گئی- ان میں سے بعض عورتیں اس دانشور کے کلام پر ہنستی تھیں اور بعض عورتیں مذاق اڑاتی تھیں اور بعض عورتیں اس کو برا بھلا کہتی تھیں، بہر حال محفل شور و غل اور ہلچل سے دوچار ھوئی اور عورتیں متفرق ہوگئیں -

حضرت خدیجہ {س} اس ماجرا کا مشاہدہ کرنے کے بعد فوراً 13/79
گھر چلی گئیں اور ایک کونے میں خاموش بیٹھ کر غور و فکر کرنے لگیں- اس دوران کبھی ان کے ذہن میں ، چند دن پہلے دیکھے ھوئے اپنے خواب کا منظر پیدا ھوتا تھا اور کبھی اس یہودی عالم کا کلام یاد آتا تھا- وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہودی دانشور کے کلام اور خواب میں دیکھے ھوئے سورج کے 14/79
درمیان ضرور کوئی رابطہ ہے-

دوسرے دن، حضرت خدیجہ {س} نے اپنی ایک کنیز کو اس یہودی دانشور کے پاس بھیجا اور اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی- یہ اہل کتاب دانشور جب حضرت خدیجہ {س} کے گھر پہنچا تو حضرت خدیجہ نے اس سے سوال کیا کہ : اے دانشور؛ آپ نے کیسے سمجھا کہ محمد {ص} خدا کے 15/79
پیغمبر ہیں؟

یہودی عالم نے جواب میں کہا: " میں نے ان کی صفات کو تورات میں پڑھا ہے- تورات میں آیا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان {ص} کے ماں باپ ان کے بچپن میں دنیا سے چلے جائیں گے، ان کی کفالت، پرورش اور حفاظت ان کے جد اور پھوپھی کریں گے اور وہ قریش کی ایک خاتون سے شادی کریں گے جو 16/79
اپنی قوم کی عظیم خاتون ھوں گی اور اپنے قبیلہ میں امیر اور صاحب تدبیر ھوں گی-"

اس کے بعد اس یہودی دانشور نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا: " اے خدیجہ؛ میری اس بات کو اپنے پاس محفوظ رکھنا اور اسے فراموش نہ کرنا"-
اس کے بعد اس دانشور نے آنحضرت {ص} کی عظمت و جلال کے بارے 17/79
میں چند اشعار پڑھے اور واپس جاتے وقت حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" کوشش کرنا کہ محمد {ص} کو نہ کھو دینا، ان کے ساتھ شادی کرنے میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے"-

حضرت محمد مصطفے {ص} 25 سال کے تھے کہ زبردست خشک سالی نے تمام عربستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- مکہ کے لوگ خاص کر 18/79
جن لوگوں کی زندگی مویشی پالنے اور زراعت پر منحصر تھی، زبردست مشکلات سے دوچار ھوئے-

قریش کے سردار جناب ابوطالب، دوسروں کی بہ نسبت زیادہ مشکلات سے دوچار ھوئے- عیال بار ھونے، لوگوں کی زیادہ آمد و رفت اور زائرین کا ان کے گھر میں آنا اور آمدنی کی کمی نے ان کی زندگی کو گونا گون 19/79
مشکلات سے دوچار کیا تھا-

اس سال، قریش کے تاجروں اور سوداگروں نے تجارتی کاروان تشکیل دے کر شام بھیجنے کا فیصلہ کیا – اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق جنس و مال تیار کرکے کاروان میں شرکت کرتا تھا- جن افراد کی مالی استطاعت نہیں ہوتی تھی، وہ سرمایہ 20/79
داروں کے پاس جاکر ان سے قرضہ لیتے تھے اور مضاربہ کی صورت میں تجارتی کاروان میں شرکت کرتے تھے-

جناب ابو طالب نے حضرت محمد {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" اے میرے بھتیجے؛ ہم سخت حالات سے دوچار ہیں، میں بھی بوڑھا اور تنگ دست ھو چکا ھوں اور زندگی کے آخری ایام گزار رہا ھوں- میری تمنا 21/79
ہے کہ مرنے سے پہلے آپ {ص} کے لئے ایک شریک حیات کو منتخب کروں تاکہ آپ شادی کریں اور میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ اس دنیا کو وداع کرجاوں- لیکن مالی مشکلات میری اس تمنا کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور آپ {ص} کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ھوں-"

جناب ابو طالب 22/79
نے اپنی بات کو جاری رکھتے ھوئے فرمایا:" اے محمد {ص} ؛ قریش کا تجارتی کاروان عنقریب تشکیل پاکر شام جا رہا ہے- خدیجہ بنت خویلد ہماری رشتہ دار ہے اور کافی دولتمند ہے- مکہ کے بہت سے لوگوں نے ان سے مال اور سرمایہ قرض کے طور پر لیا ہے اور ان کے مال سے تجارت کرتے ہیں- اگر آپ {ص} 23/79
خدیجہ کے پاس جائیں گے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ آپ {ص} کو کافی مال دیں گی، اس سرمایہ سے مال خرید کرقریش کے کاروان کے ہمراہ آپ {ص} شام چلے جائیں- شائد اس تجارت کے نتیجہ میں آپ {ص} کو کوئی نفع مل جائے اور خداوند متعال ہماری زندگی کی بعض مشکلات کو حل کردے-

تقدیر الہی سے ان دنوں 24/79
حضرت محمد {ص} کی سچائی، صداقت، اور امانتداری کا چرچا تھا اور مکہ کے لوگوں نے آپ {ص} کو " محمد امین" کا لقب دیا تھا-
حضرت خدیجہ مکہ کے لوگوں میں امین اور صحیح کام کرنے والے افراد کو چن چن کر اپنے تجارتی کاروان میں شامل کرتی تھیں، اور وہ آنحضرت {ص} کی صداقت اور امانتداری کے 25/79
بارے میں مطلع ھوچکی تھیں-

حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کی زندگی کی مشکلات اور حضرت محمد { ص} سے ان کی گفتگو کے بارے میں مطلع ھوئیں- اس کے بعد حضرت خدیجہ نے آنحضرت {ص} کو یہ پیغام بھیجا:" اگر آپ {ص} تجارت کے لئے آمادہ ہیں تو میں تیار ھوں کہ دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپ {ص} کے 26/79
اختیار میں دوگنا سرمایہ قرار دوں تاکہ آپ {ص} میرے تجارتی کاروان میں شرکت کریں-"

آنحضرت {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کے پیغام کے بارے میں اپنے چچا ابوطالب کو آگاہ فرمایا- جناب ابو طالب نے جواب میں کہا:" میرے بھتیجے؛ یہ وہ رزق ہے جسے خداوند متعال نے آپ {ص} کا مقدر قرار دیا ہے، 27/79
بہتر ہے کہ ہم جاکر جناب خدیجہ سے گفتگو کریں-"

جناب ابو طالب، جناب عباس اور بنی ہاشم کے چند دوسرے افراد کے ہمراہ جناب خدیجہ {س} کے گھر گئے- جناب خدیجہ نے خاطر تواضع کے بعد ان سے کہا:

" اے مکہ اور حرم کے بزرگو؛ میں آپ کی تشریف آوری کو خوش آمدید کہتی ھوں جو بھی حاجت رکھتے 28/79
ہیں، بیان فرمائیں تاکہ میں اسے انجام دوں"-

جناب ابو طالب نے کہا:" میں ایک ایسی حاجت کے لئے آیا ھوں کہ جس کا نفع آپ کو ملے گا اور آپ کے مال میں برکت پیدا ھوگی- ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ اپنے بھتیجے محمد {ص} کے لئے آپ سے کچھ مال ضمانت اور قرضہ کے طور پر لے لیں تاکہ وہ اس سے 29/79
تجارت کریں"-

حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کے تشریف لانے اور حضرت محمد {ص} کے تجارت کے لئے آمادگی رکھنے سے خوش ھوئی تھیں، ان سے مخاطب ھوکر کہا:" محمد {ص} بہتر ہے آپ مطلع رہیں کہ قریش کے تجارتی کاروان کا نصف سے زیادہ سرمایہ اور مال میرا ہے، مجھے اس مال کے لئے آپ {ص} جیسے امین 30/79
اور صادق شخص کی ضرورت ہے تاکہ میں اسے اپنے مال و سرمایہ کا با اختیار امین قرار دوں تاکہ وہ اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے، جس طرح مناسب سمجھے تجارت اور لین دین انجام دے"-

حضرت محمد {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں سفر کرنے میں دلچسپی رکھتا ھوں اور کاروان کےساتھ تجارت کے لئے شام 31/79
جانے کے لئے آمادہ ھوں"-

حضرت خدیجہ نے، میسرہ و ناصح نامی اپنے دو غلاموں کو بلاکر ان سے کہا: " محمد {ص} میرے اموال کے امانتدار ہیں، میرے اموال کے بارے میں ان کو مکمل اختیار ہے- وہ جو کہیں اس پر عمل کرنا اور وہ جوبھی فیصلہ کریں اس کے بارے میں ان کے ساتھ تعاون کرنا- کوئی شخص 32/79
ان کے فیصلہ کے بارے میں اعتراض نہیں کرسکتا ہے اور کوئی ان کے ساتھ تیز کلامی کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے-"

حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور ناصح کے تعاون سے اونٹوں پر سامان باندھا- رخصت کرنے کے لئے آئے ھوئے اپنے چچا اور جناب خدیجہ کو الوداع کہنے کے بعد ابطح کی طرف روانہ ھوئے تاکہ 33/79
شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی کاروان سے ملحق ھو جائیں- وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاروان کے ساتھ شام کی طرف روانہ ھوگئے-

کئی پڑاو طے کرنے کے بعد یہ کاروان " وادی الامواہ" نامی ایک بیابان میں پہنچا، اچانک آسمان پر ہر بادلوں کی کالی گھٹائیں چھا گئیں- آنحضرت 34/79
{ص} نے کاروان کے بزرگوں سے مخاطب ھوکر فرمایا:

" اس بیابان میں شدید اور سیلابی بارش ہونے والی ہے، بہتر ہے کہ کاروان کو پہاڑ کی بلندی پر ٹھہرایا جائے اور بارش اور سیلاب تھمنے کے بعد ہم پھر سے آگے بڑھیں- کاروان والوں نے حضرت محمد {ص} کی تجویز سے اتفاق کیا اور کاروان کو پہاڑی 35/79
کے اوپر ٹھہرایا- کاروان کے رکنے کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ زبردست بارش ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے بیابان کو سیلاب نے اپنے لپیٹ میں لے لیا- قریش کا یہ تجارتی کاروان چار دن تک اس بیابان میں رکا رہا، بارش اور سیلاب رکنے کے بعد کاروان پھر سے آگے بڑھا اورصحیح و 36/79
سالم حالت میں وہاں سے گزرگیا-

کاروان آگے بڑھتے ھوئے ایک ایسے علاقہ میں پہنچا، جسے " ایلہ" یا " بصری" کہتے تھے- وہاں پر ایک عبادت گاہ تھی، جس میں بہت سے راھب اور پادری عبادت میں مشغول تھے- ان کے درمیان ایک پادری تھا جو سب سے عالم اور دانا تھا، اسے " فیلق بن یونان بن 37/79
عبدالصلیب" کہتے تھے- فیلق نے پیغمبر آخر الزمان { ص} کی خصوصیات کو آسمانی کتابوں میں پڑھا تھا- وہ جانتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمان سر زمین حجاز سے ظہور کریں گے اور تجارتی کاروان کے ھمراہ شام کی طرف سفر کریں گے- فیلق نے دور سے مشاہدہ کیا کہ کاروان کے اوپر بادل کے دو ٹکڑے سایہ 38/79
کئے ھوئے کاروان کے ساتھ ساتھ " ایلہ" { یا بصری} کی طرف بڑھ رہے ہیں-

قریش کا کاروان "ایلہ" {بصری} پہنچا- حضرت محمد {ص} ایلہ کے نزدیک ایک خشک کنویں کی طرف بڑھے اور اس کے بعد اس کنویں میں اپنا ہاتھ ڈالا- اور اس میں سے چلو بھر پانی اٹھا کر اپنے ہاتھ دھولئے اور اس کے بعد قریب 39/79
میں موجود ایک سوکھے ھوئے درخت کے نیچے بیٹھ گئے- سوکھا ھوا درخت سرسبز ھوا اور حضرت محمد {ص} اس کے سائے میں عبادت میں مشغول ھوگئے۔
پادری"فیلق" نے کاروان کے سر پرست کو بلاکر اس سے پوچھا
یہ شخص، جو اس درخت کے نیچے بیٹھا ہے، کون ہے؟
اس نے جواب میں کہا کہ قریش کا ایک مرد اور اہل 40/79
مکہ ہے۔
"فیلق" نے اس سے کہا
"خدا کی قسم اس درخت کے نیچے پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھا ہے۔"
اس کے بعد فیلق نے کاروان کے سرپرست سے آنحضرت {ص} کی تعریف کی اور مستقبل قریب میں ان کی نبوت کی خبر دیدی-

بہر حال کاروان، شام میں داخل ھوگیا اور وہاں کے لوگ عربستان کے تاجروں کے 41/79
مال و اجناس خرید نے کے لئے جوق در جوق آگئے اور کچھ گھنٹوں کے اندر ہی تمام مال کو خرید لیا- لیکن حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور اپنے دوسرے کارکنوں سے فرمایا کہ آج کوئی چیز فروخت نہ کریں- دوسرے دن شام کے اطراف میں موجود قبائل اور لوگوں نے قریش کے تجارتی کاروان کے آنے کی خبر سنی 42/79
اور مال خرید نے کے لئے ٹوٹ پڑے- لیکن قریش کے کاروان کا تمام مال فروخت ھو چکا تھا اور صرف آنحضرت {ص} کا مال بچا تھا- اس لئے آنحضرت {ص} نے دوسرے دن اپنے مال کو مناسب تر قیمت میں بیچا اور بیشتر نفع کما کر واپس مکہ لوٹے-

حضرت محمد {ص} جب مکہ میں داخل ھوئے تو، پہلے خانہ کعبہ 43/79
کے طواف کے لئے گئے- اس وقت جناب خدیجہ بطحا میں اپنے بلند محل کے ایوان پر چند خواتین کے ھمراہ بیٹھی ھوئی تھیں اور دور سے حضرت محمد {ص} کا مشاہدہ کر رہی تھیں کہ آنحضرت {ص} طواف کعبہ میں مشغول تھے اور دو فرشتے آپ {ص} پر سایہ کئے ھوئے تھے- جناب خدیجہ {س} کے پاس بیٹھی ھوئی 44/79
عورتیں بھی ملائکہ کے سایہ کا مشاہدہ کر رہی تھیں-

حضرت محمد {ص} طواف کعبہ بجا لانے کے بعد، جناب خدیجہ کے گھر تشریف لائے، جو آپ {ص} کے انتظار میں تھیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} نے اپنے شام کے سفر اور حاصل شدہ نفع کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ شیرین زبان میں رپورٹ پیش کی، جس 45/79
کا حساب و کتاب پہلے سے مرتب کیا گیا تھا- اور حضرت خدیجہ کو معلوم ھوا کہ اس عجیب سفر میں انھیں غیر معمولی نفع حاصل ھوا ہے-

اس عظیم خاتون نے سفر کی رپورٹ سننے کے بعد اپنے غلاموں سے مخاطب ھوکر کہا:" جو کچھ دوسروں کو دیا ہے، اس کا دوگنا محمد {ص} کو دیدو"-

اس کے بعد حضرت محمد 46/79
{ص} جناب خدیجہ کو خدا حافظ کہہ کر اپنے چچا، جناب ابو طالب کے گھر چلے گئے-

حضرت محمد {ص} کے جناب خدیجہ {س} کے گھر سے تشریف لےجانے کے بعد، میسرہ ان کے گھر میں داخل ھوا- اور اس نے اس سفر کے بارے میں جناب خدیجہ کی خدمت میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی اور اس رپورٹ میں کاروان کے ساتھ 47/79
بادلوں کے چلنے، حضرت محمد {ص} کے بارے میں "فیلق" کی پیشنگوئیوں اور سوکھے ھوئے درخت کے سرسبز ھونے کے بارے میں اپنے عینی مشاہدات من وعن بیان کئے۔

میسرہ کی رپورٹ نے جناب خدیجہ کو زبردست متاثر کیا اور اس امید افزا رپورٹ کو بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اس غلام، یعنی میسرہ کو آزاد 48/79
کیا۔

اس کے بعد جناب خدیجہ نے جو کچھ میسرہ کی زبانی سنا تھا اسے اپنے چچازاد بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس بیان کیا- ورقہ بن نوفل نے یہ داستان سننے کے بعد کہا:" اگر میسرہ کی رپورٹ صحیح ھو تو، محمد {ص} وہی پیغمبر ہیں، جس کا "بعثتش" نے اس امت سے وعدہ کیا ہے اور میں نے ان کے 49/79
اوصاف کو آسمانی کتابوں میں پڑھا ہے"

اس کے بعد جناب خدیجہ {س} کو یہ یقین حاصل ھوگیا کہ محمد {ص} دوسرے انسانوں کے مانند ایک عام انسان نہیں ہیں- اس لئے ایک بار پھر ان کا چند دن پہلے دیکھا ھوا خواب ان کی نظروں کے سامنے مجسم ھوگیا اور اس یہودی عالم کی باتیں بھی انھیں یاد 50/79
آگئیں۔

حضرت محمد {ص} کے شام کے منافع بخش سفر، اس سفر میں آنحضرت {ص} کی صداقت و مدیریت اور میسرہ کی زبانی ان واقعات کے بارے میں مفصل رپورٹ سننے کے بعد جناب خدیجہ آنحضرت {ص} سے حد فرجہ متاثر ھو گئیں اور آپ {س} کے دل میں آنحضرت {ص] کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرنے کی خواہش پیدا 51/79
ہوئی- لیکن اس زمانہ کے معاشرہ کی رسم کے مطابق عورتوں سے مرد خواستگاری کرتے تھے- اس قسم کے معاشرے میں اگر کوئی عورت، مرد سے خواستگاری کرتی، تو اس پر چہ میگوئیاں ھوتیں اور افواہیں پھیلائی جاتیں-

آخر کار جناب خدیجہ {س} نے "نفیسہ بنت منیہ" کو اپنے گھر بلایا اور اس سے درخواست 52/79
کی کہ حضرت محمد {ص} کی خدمت میں جاکر آنحضرت {ص} سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے ان کے ارادہ کو بیان کرنے کی ضمن میں جس طرح بھی ممکن ھوسکے آنحضرت {ص} کے نظریہ کو حاصل کرے-

نفیسہ نے حضرت محمد {ص} سے اس وقت ملاقات کی جب آپ {ص} کعبہ کا طواف بجا لانے کے بعد لوٹ رہے تھے- نفیسہ نے 53/79
حال و احوال پوچھنے کے بعد آپ {ص} سے سوال کیا
"اے محمد {ص} آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟"
آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا
"خالی ہاتھ، شادی نہیں کی جاسکتی ہے"
نفیسہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا
"اگر میں کسی ایسی خاتون کا تعارف کراؤں جو جاہ و جمال اور شرافت میں آپ {ص} کی ہم پلہ ھو اور 54/79
کافی مال و دولت کی بھی مالک ھو، تو کیا آپ {ص} اس سے ازدواج کے لئے آمادہ ہیں؟"

حضرت محمد {ص} نے تھوڑا سا غور کرنے کے بعد فرمایا
"وہ کون ھوسکتی ہے؟"
نفیسہ نے جواب میں کہا
"خدیجہ؛"

حضرت محمد {ص} نے سوال کیا
"کیا وہ شادی کریں گی؟ میں نےتو سنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی 55/79
خواستگاری کی ہے اور انھوں نے ان سب کا انکار کیا ہے اگر وہ راضی ھوں تو میں موافق اور راضی ھوں"

نفیسہ فوراً جناب خدیجہ {س} کے گھر پہنچیں اور انھیں حضرت محمد {ص} کی ان کے ساتھ شادی کرنے کی رضامندی کی خبر سنا دی-

حضرت محمد {ص} نے، جناب خدیجہ کی آپ {ص} سے شادی کرنے کی رضا 56/79
مندی اور ان سے ازدواج کی اپنی دلچسپی اور رضا مندی کے بارے میں اپنے چچا {ابو طالب، عباس اور ابولہب} کو آگاہ کیا- ابولہب نے کہا
"میرے بھتیجے، ہمیں عربوں میں بدنام نہ کرنا، تم خدیجہ کے لائق نہیں ھو"

آنحضرت {ص} کے چچا عباس اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ھوئے اور ابو لہب سے تیز لہجے 57/79
میں مخاطب ھوکر کہا
"تم ایک پست اور بدکردار آدمی ھو، خدیجہ میرے اس بھتیجے کے بارے میں کون سا اعتراض کرسکتی ہیں- محمد {ص}، دلربا جمال و کمال کے مالک ہیں- خدیجہ کیسے اپنے آپ کو ان سے برتر ثابت کرسکتی ہیں- کیا مال یا کمال کی وجہ سے؟ کعبہ کے خدا کی قسم، خدیجہ جتنا بھی محمد سے 58/79
مہر چاہے، میں گھوڑے پر سوار ھوکر بیابانوں میں گھوم کر اور بادشاھوں کے محلوں میں جاکر اسے مہیا کروں گا"

جناب ابوطالب اپنے بھائیوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ جناب خدیجہ کا نظریہ اور ان کی طرف سے ممکنہ شرائط معلوم کئے جائیں اور اس 59/79
کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے- اس کے بعد انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی صفیہ کو خدیجہ کے پاس بھیجا تاکہ بلا واسطہ ان سے گفتگو کرکے اس سلسلہ میں ان کے نظریہ کے بارے میں آگاہی حاصل کریں-

جناب صفیہ، جناب خدیجہ کے گھر گئیں- جب جناب خدیجہ کو معلوم ھوا کہ 60/79
صفیہ ان کی ملاقات کے لئے آئی ہیں، تو وہ دوڑ کے استقبال کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور انھیں اپنے مخصوص کمرے میں لے گئیں- جب کمرے میں داخل ھوئیں، تو اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ جناب صفیہ کے لئے خورد و نوش کی لذیذ نعمتیں لائیں اور ان کی خاطر تواضع کریں- جناب صفیہ نے کہا:" میں کھانا 61/79
کھانے کے لئے نہیں آئی ھوں، بلکہ میں اس لئے آئی ھوں کہ جان لوں کہ جو کچھ میں نے سنا ہے وہ سچ ہے یا نہیں؟

جناب خدیجہ نے یہ پوچھے بغیر کہ آپ نے کیا سنا ہے اور دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں، جواب میں کہا:
"جی ہاں، آپ نے صحیح سنا ہے، وہ عورت خوش قسمت ہے جو محمد {ص} کی شریک حیات بنے، 62/79
کیونکہ محمد {ص} ان کے لئے فخر ومباہات کا سبب ہیں- میں محمد {ص} کی عظمت اور شخصیت سے واقف ھوں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لئے سعادت اور ایک عظیم فخر سمجھتی ھوں، ان کا مہر بھی میں اپنے مال سے ادا کروں گی"
جناب صفیہ نے جناب خدیجہ کا دو ٹوک الفاظ میں جواب سن کر خوشی 63/79
اور مسرت میں کہا
"اے خدیجہ،خدا کی قسم آپ محمد {ص} سے محبت کرنے میں حق بجانب ہیں- ابھی تک کسی آنکھ نے آپ کے محبوب کے مانند کسی نور کو نہیں دیکھا ہے اور کسی کان نے ان کے کلام سے شیرین تر کلام نہیں سنا ہے"

اس کے بعد جناب صفیہ نے حضرت خدیجہ سے رخصت لی اور مسرت و شادمانی کی 64/79
حالت میں جناب ابوطالب کے گھر کی طرف لوٹیں، جہاں پر بنی ہاشم کے بزرگ افراد ان کا انتظار کر رہے تھے- جناب ابو طالب کے گھر میں داخل ھونے کے بعد جناب صفیہ نے بنی ہاشم کے بزرگوں کے سامنے، حضرت محمد {ص} کے تئیں جناب خدیجہ کے نا قابل توصیف محبت و احترام کو بیان کیا-
ابولہب کے 65/79
علاوہ بنی ہاشم کے تمام افراد یہ خبر سن کر خوش ھوئے، کیونکہ ابولہب ہمیشہ حضرت محمد سے حسد رکھتا تھا- اس کے بعد آنحضرت {ص} کے چچا اور بنی ہاشم کے بزرگوں نے با ضابطہ طور پر جناب خدیجہ کے پاس خواستگاری کے لئے جانے کا فیصلہ کیا-

28 سال ھجرت سے قبل { بعثت سے 15 سال قبل} 9 شوال 66/79
کو جناب ابوطالب، اپنے عید کے لباس کو زیب تن کرکےبنی ہاشم کے چند بزرگوں کی سرپرستی کرتے ھوئے حضرت خدیجہ {س} کے چچا "عمرو بن اسد" کے گھر کی طرف روانہ ھوئے- کیونکہ طے یہ پایا تھا کہ نکاح خوانی کی رسم وہیں پرمنعقد ھوگی- تواضع اور مہمان نوازی کے بعد سب سے پہلے جناب ابوطالب نے 67/79
خدائے سبحان کی وحدانیت اور مکہ و محمد {ص} کی عظمت کے بارے میں ایک خطبہ پڑھا-

" حمد وثنا اس خداوند متعال کی جس نے ہمیں حضرت ابراھیم {ع} کا حاصل شدہ اور حضرت اسماعیل کی ذریت قرار دیا- اور ہمارے لئے ایک مقدس گھر تعمیر کیا جو حجاج کا مقصود اور امن و سلامتی کا حرم ہے کہ ہر چیز 68/79
کا ثمرہ اس کے گرد گھومتا ہے- اور ہمیں اپنے شہر کے باشندوں پر حاکم قرار دیا-
میرا بھتیجہ، محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب، ایک ایسا مرد ہے، جس کا قریش کے مردوں میں سے کوئی مرد ہم پلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ان سے بلند تر ہے اور اس کا ان میں سے کسی کے ساتھ موازنہ نہین کیا جاسکتا ہے، 69/79
کیونکہ وہ ان سے برتر ہے، اور اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے، لیکن مال ہمیشہ تغیر و تبدل کی حالت میں ھوتا ہے اور سایہ کے مانند زائل ھونے والا ھوتا ہے- وہ خدیجہ کو چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اسے چاہتی ہے- نقد و غیر نقد کی صورت میں جو بھی مھر مطالبہ کیا جائے گا وہ آمادہ ہے- اور محمد 70/79
{ص} ایک عظیم مقام، بلند شان اور کافی شہرت کے مالک ھوں گے"

خطبہ پڑھنے کے بعد مہر کے بارے میں گفتگو ھوئی- حضرت خدیجہ {س} کے مہر کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں- ابن عباس نے خدیجہ {س} کا مہر بارہ " اوقیہ" ذکر کیا ہے- جبکہ سیرہ ابن ہشام میں بیس "بکرہ" ذکر کیا گیا ہے-
71/79
جناب خدیجہ کے چچا "عمرو بن اسد" مہر کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے کہ لکنت زبان سے دوچار ھوئے اور ان کی زبان لڑکھڑائی اور کچھ نہ کہہ سکے- جناب ابو طالب، خدیجہ کے چچا کا نظریہ سمجھ چکے تھے، اس لئے ان سے مخاطب ھوکر کہا:" خدیجہ اور محمد {ص} دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ہم ان 72/79
دونوں کو آپس میں ملانے اور محمد {ص} کے لئے خدیجہ کی خواستگاری کے لئے آئے ہیں"-

اس کے بعد جناب خدیجہ نے اپنے چچا سے مخاطب ھوکر کہا
"عمو جان! ممکن ہے دوسرے مسائل میں آپ اختیار رکھتے ھوں، لیکن یہاں پر خود مجھے اختیار ہے- اس کے بعد کہا:" اے محمد {ص}؛ میں نے اپنے آپ کو آپ {ص] 73/79
کی بیوی قرار دیا اور مہر بھی میں نے اپنے ہی ذمہ لے لیا"-

جناب ابوطالب نے حضار سے مخاطب ھوکر کہا
"گواہ رہنا کہ خدیجہ نے محمد {ص} کو اپنے شوہر کے عنوان سے قبول کیا اور مہر بھی اپنے ہی ذمہ لےلیا"

ابوجہل کھڑا ھوا اور غضبناک ھوکر حضار سے مخاطب ھوکر بولا
"تعجب کی بات ہے کہ 74/79
عورتیں مردوں کے مہر کو اپنے ذمہ لیتی ہیں؛"

جناب ابوطالب غضبناک ھوگئے اور کھڑے ھوکر کہا
"جی ہاں، اگر کوئی مرد میرے بھتیجے کے مانند ھو تو عورتیں سب سے گراں قیمت مہر کو بھی اپنے ذمہ لیتی ہیں اور تم جیسے ھوں تو گراں قیمت مہر لئے بغیر ان سے ازدواج کے لئے آمادہ نہیں ھوتیں"

مہر 75/79
معین ھونے کے بعد عقد و نکاح کے مراسم منعقد ھوئے اور جناب خدیجہ اس تاریخ کے بعد قانونی طور پر حضرت محمد{ص} کی شریک حیات بن گئیں-
عقد کی تقریب ختم ھونے کے بعد، تمام مہمان اٹھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے- حضرت محمد {ص} بھی اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ گھر جانے کے لئے کھڑے ھوئے- جناب 76/79
خدیجہ {س} چونکہ جانتی تھیں کہ حضرت محمد {ص} کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے، اس لئے آنحضرت {ص} کی طرف مخاطب ھوکر کہا
"اپنے گھر کی طرف آئیے، کہ میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں بھی آپ کی کنیز ھوں"

اس کے بعد آنحضرت {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" اے محمد {ص}، اپنے چچا ابوطالب سے کہدیجئے 77/79
کہ دس اونٹ نحر کریں اور لوگوں کو دعوت کرکے کھانا کھلائیں"

جناب ابوطالب نے دس اونٹ نحر کئے اور مکہ کے لوگوں کو کھانا کھلایا- اس طرح اس ولیمہ کے ذریعہ حضرت محمد {ص} کے عقد و شادی کی تقریب اختتام کو پہنچی-

شادی کے بعد آپ {س} کی ازدواجی زندگی، آپ {س} کا مسلمان ہونا اور پھر 78/79
آپ{س} کی اولاد کی تفصیل غرض ابھی بہت کچھ باقی ہے لیکن اگلے تھریڈ میں ان شاءاللہ 🙏
اور جو احباب پہلی قسط نہیں پڑھ سکے وہ 👇یہاں سے پڑھ لیں
#پیرکامل

79/79
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!