حضرت خدیجہ {س} عام طور پر رات کی تاریکی میں اپنی سہلیوں کے ھمراہ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے جاتی تھیں- ایک رات کو جب طواف کعبہ کے لئے گئی تھیں، طواف بجالانے کے بعد کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑی ھوکر اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے میں مشغول ھوئیں 1/79
انھوں نے خواب میں سورج کو انسان کی شکل میں دیکھا کہ مکہ کے آسمان سے طلوع ہو کر رفتہ رفتہ ان 2/79
حضرت خدیجہ {س} تعجب اور حیرت کے عالم میں نیند سے بیدار ھوئیں اور اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالی، انھوں نے سوئے 3/79
حضرت خدیجہ {س} بخوبی جانتی تھیں کہ ان کا یہ خواب ایک 4/79
جوں ہی ان کی بات ختم ھوئی، ورقہ بن نوفل کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رونما ھوئی اور انھوں نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" مبارک ھو تم پر اے میری 7/79
حضرت خدیجہ {س} گہری سوچ میں پڑگئیں کہ نور نبوت کیسے ان کے گھر آئے گا اور ان کا گھر کیسے تمام دنیا کے لئے نور کا مرکز بنے گا؟ حضرت خدیجہ {س} ایک مدت تک 8/79
اس دوران جو بھی شخص ان کی خواستگاری کے لئے آتا تھا، ان کے سامنے وہ نورانی سورج مجسم ھوتا تھا، جسے انھوں نے خواب میں دیکھا تھا اور جب دیکھتی تھیں کہ خواستگاری کرنے والا شخص ان کے خواب سے 9/79
مکہ کی عورتیں ایک رسم کے مطابق قدیم زمانہ سے ہر سال، ماہ رجب کی ایک رات کو کعبہ کے پاس جمع ھوتی تھیں اور جشن و سرود کی ایک محفل منعقد کرتی تھیں اور اس محفل میں اہل کتاب میں سے ایک دانشور کو تقریر کرنے کی 10/79
ایک رات کو ایسی ہی ایک محفل منعقد ہو رہی تھی- جب حضرت خدیجہ {س} اس محفل میں پہنچیں، اس وقت ایک یہودی عالم نے تازہ اپنی تقریر شروع کی تھی- اس کی اس تقریر کے دوران اچانک حضرت محمد {ص} کعبہ کے پاس سے گزرے- تقریر کرنے والے اہل کتاب کی نظر جوں ہی آنحضرت {ص} 11/79
" اے قریش کی خواتین؛ جو جوان ابھی ابھی کعبہ کے پاس سے گزرا، وہ مستقبل میں پیغمبر آخر الزمان {ص} ھوگا، آپ میں سے جو بھی اس کی شریک حیات بن سکتی ھو، اس میں تاخیر نہ کرنا-"
اس اہل کتاب دانشور کے کلام کو سن کر 12/79
حضرت خدیجہ {س} اس ماجرا کا مشاہدہ کرنے کے بعد فوراً 13/79
دوسرے دن، حضرت خدیجہ {س} نے اپنی ایک کنیز کو اس یہودی دانشور کے پاس بھیجا اور اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی- یہ اہل کتاب دانشور جب حضرت خدیجہ {س} کے گھر پہنچا تو حضرت خدیجہ نے اس سے سوال کیا کہ : اے دانشور؛ آپ نے کیسے سمجھا کہ محمد {ص} خدا کے 15/79
یہودی عالم نے جواب میں کہا: " میں نے ان کی صفات کو تورات میں پڑھا ہے- تورات میں آیا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان {ص} کے ماں باپ ان کے بچپن میں دنیا سے چلے جائیں گے، ان کی کفالت، پرورش اور حفاظت ان کے جد اور پھوپھی کریں گے اور وہ قریش کی ایک خاتون سے شادی کریں گے جو 16/79
اس کے بعد اس یہودی دانشور نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا: " اے خدیجہ؛ میری اس بات کو اپنے پاس محفوظ رکھنا اور اسے فراموش نہ کرنا"-
اس کے بعد اس دانشور نے آنحضرت {ص} کی عظمت و جلال کے بارے 17/79
حضرت محمد مصطفے {ص} 25 سال کے تھے کہ زبردست خشک سالی نے تمام عربستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- مکہ کے لوگ خاص کر 18/79
قریش کے سردار جناب ابوطالب، دوسروں کی بہ نسبت زیادہ مشکلات سے دوچار ھوئے- عیال بار ھونے، لوگوں کی زیادہ آمد و رفت اور زائرین کا ان کے گھر میں آنا اور آمدنی کی کمی نے ان کی زندگی کو گونا گون 19/79
اس سال، قریش کے تاجروں اور سوداگروں نے تجارتی کاروان تشکیل دے کر شام بھیجنے کا فیصلہ کیا – اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق جنس و مال تیار کرکے کاروان میں شرکت کرتا تھا- جن افراد کی مالی استطاعت نہیں ہوتی تھی، وہ سرمایہ 20/79
جناب ابو طالب نے حضرت محمد {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" اے میرے بھتیجے؛ ہم سخت حالات سے دوچار ہیں، میں بھی بوڑھا اور تنگ دست ھو چکا ھوں اور زندگی کے آخری ایام گزار رہا ھوں- میری تمنا 21/79
جناب ابو طالب 22/79
تقدیر الہی سے ان دنوں 24/79
حضرت خدیجہ مکہ کے لوگوں میں امین اور صحیح کام کرنے والے افراد کو چن چن کر اپنے تجارتی کاروان میں شامل کرتی تھیں، اور وہ آنحضرت {ص} کی صداقت اور امانتداری کے 25/79
حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کی زندگی کی مشکلات اور حضرت محمد { ص} سے ان کی گفتگو کے بارے میں مطلع ھوئیں- اس کے بعد حضرت خدیجہ نے آنحضرت {ص} کو یہ پیغام بھیجا:" اگر آپ {ص} تجارت کے لئے آمادہ ہیں تو میں تیار ھوں کہ دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپ {ص} کے 26/79
آنحضرت {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کے پیغام کے بارے میں اپنے چچا ابوطالب کو آگاہ فرمایا- جناب ابو طالب نے جواب میں کہا:" میرے بھتیجے؛ یہ وہ رزق ہے جسے خداوند متعال نے آپ {ص} کا مقدر قرار دیا ہے، 27/79
جناب ابو طالب، جناب عباس اور بنی ہاشم کے چند دوسرے افراد کے ہمراہ جناب خدیجہ {س} کے گھر گئے- جناب خدیجہ نے خاطر تواضع کے بعد ان سے کہا:
" اے مکہ اور حرم کے بزرگو؛ میں آپ کی تشریف آوری کو خوش آمدید کہتی ھوں جو بھی حاجت رکھتے 28/79
جناب ابو طالب نے کہا:" میں ایک ایسی حاجت کے لئے آیا ھوں کہ جس کا نفع آپ کو ملے گا اور آپ کے مال میں برکت پیدا ھوگی- ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ اپنے بھتیجے محمد {ص} کے لئے آپ سے کچھ مال ضمانت اور قرضہ کے طور پر لے لیں تاکہ وہ اس سے 29/79
حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کے تشریف لانے اور حضرت محمد {ص} کے تجارت کے لئے آمادگی رکھنے سے خوش ھوئی تھیں، ان سے مخاطب ھوکر کہا:" محمد {ص} بہتر ہے آپ مطلع رہیں کہ قریش کے تجارتی کاروان کا نصف سے زیادہ سرمایہ اور مال میرا ہے، مجھے اس مال کے لئے آپ {ص} جیسے امین 30/79
حضرت محمد {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں سفر کرنے میں دلچسپی رکھتا ھوں اور کاروان کےساتھ تجارت کے لئے شام 31/79
حضرت خدیجہ نے، میسرہ و ناصح نامی اپنے دو غلاموں کو بلاکر ان سے کہا: " محمد {ص} میرے اموال کے امانتدار ہیں، میرے اموال کے بارے میں ان کو مکمل اختیار ہے- وہ جو کہیں اس پر عمل کرنا اور وہ جوبھی فیصلہ کریں اس کے بارے میں ان کے ساتھ تعاون کرنا- کوئی شخص 32/79
حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور ناصح کے تعاون سے اونٹوں پر سامان باندھا- رخصت کرنے کے لئے آئے ھوئے اپنے چچا اور جناب خدیجہ کو الوداع کہنے کے بعد ابطح کی طرف روانہ ھوئے تاکہ 33/79
کئی پڑاو طے کرنے کے بعد یہ کاروان " وادی الامواہ" نامی ایک بیابان میں پہنچا، اچانک آسمان پر ہر بادلوں کی کالی گھٹائیں چھا گئیں- آنحضرت 34/79
" اس بیابان میں شدید اور سیلابی بارش ہونے والی ہے، بہتر ہے کہ کاروان کو پہاڑ کی بلندی پر ٹھہرایا جائے اور بارش اور سیلاب تھمنے کے بعد ہم پھر سے آگے بڑھیں- کاروان والوں نے حضرت محمد {ص} کی تجویز سے اتفاق کیا اور کاروان کو پہاڑی 35/79
کاروان آگے بڑھتے ھوئے ایک ایسے علاقہ میں پہنچا، جسے " ایلہ" یا " بصری" کہتے تھے- وہاں پر ایک عبادت گاہ تھی، جس میں بہت سے راھب اور پادری عبادت میں مشغول تھے- ان کے درمیان ایک پادری تھا جو سب سے عالم اور دانا تھا، اسے " فیلق بن یونان بن 37/79
قریش کا کاروان "ایلہ" {بصری} پہنچا- حضرت محمد {ص} ایلہ کے نزدیک ایک خشک کنویں کی طرف بڑھے اور اس کے بعد اس کنویں میں اپنا ہاتھ ڈالا- اور اس میں سے چلو بھر پانی اٹھا کر اپنے ہاتھ دھولئے اور اس کے بعد قریب 39/79
پادری"فیلق" نے کاروان کے سر پرست کو بلاکر اس سے پوچھا
یہ شخص، جو اس درخت کے نیچے بیٹھا ہے، کون ہے؟
اس نے جواب میں کہا کہ قریش کا ایک مرد اور اہل 40/79
"فیلق" نے اس سے کہا
"خدا کی قسم اس درخت کے نیچے پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھا ہے۔"
اس کے بعد فیلق نے کاروان کے سرپرست سے آنحضرت {ص} کی تعریف کی اور مستقبل قریب میں ان کی نبوت کی خبر دیدی-
بہر حال کاروان، شام میں داخل ھوگیا اور وہاں کے لوگ عربستان کے تاجروں کے 41/79
حضرت محمد {ص} جب مکہ میں داخل ھوئے تو، پہلے خانہ کعبہ 43/79
حضرت محمد {ص} طواف کعبہ بجا لانے کے بعد، جناب خدیجہ کے گھر تشریف لائے، جو آپ {ص} کے انتظار میں تھیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} نے اپنے شام کے سفر اور حاصل شدہ نفع کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ شیرین زبان میں رپورٹ پیش کی، جس 45/79
اس عظیم خاتون نے سفر کی رپورٹ سننے کے بعد اپنے غلاموں سے مخاطب ھوکر کہا:" جو کچھ دوسروں کو دیا ہے، اس کا دوگنا محمد {ص} کو دیدو"-
اس کے بعد حضرت محمد 46/79
حضرت محمد {ص} کے جناب خدیجہ {س} کے گھر سے تشریف لےجانے کے بعد، میسرہ ان کے گھر میں داخل ھوا- اور اس نے اس سفر کے بارے میں جناب خدیجہ کی خدمت میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی اور اس رپورٹ میں کاروان کے ساتھ 47/79
میسرہ کی رپورٹ نے جناب خدیجہ کو زبردست متاثر کیا اور اس امید افزا رپورٹ کو بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اس غلام، یعنی میسرہ کو آزاد 48/79
اس کے بعد جناب خدیجہ نے جو کچھ میسرہ کی زبانی سنا تھا اسے اپنے چچازاد بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس بیان کیا- ورقہ بن نوفل نے یہ داستان سننے کے بعد کہا:" اگر میسرہ کی رپورٹ صحیح ھو تو، محمد {ص} وہی پیغمبر ہیں، جس کا "بعثتش" نے اس امت سے وعدہ کیا ہے اور میں نے ان کے 49/79
اس کے بعد جناب خدیجہ {س} کو یہ یقین حاصل ھوگیا کہ محمد {ص} دوسرے انسانوں کے مانند ایک عام انسان نہیں ہیں- اس لئے ایک بار پھر ان کا چند دن پہلے دیکھا ھوا خواب ان کی نظروں کے سامنے مجسم ھوگیا اور اس یہودی عالم کی باتیں بھی انھیں یاد 50/79
حضرت محمد {ص} کے شام کے منافع بخش سفر، اس سفر میں آنحضرت {ص} کی صداقت و مدیریت اور میسرہ کی زبانی ان واقعات کے بارے میں مفصل رپورٹ سننے کے بعد جناب خدیجہ آنحضرت {ص} سے حد فرجہ متاثر ھو گئیں اور آپ {س} کے دل میں آنحضرت {ص] کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرنے کی خواہش پیدا 51/79
آخر کار جناب خدیجہ {س} نے "نفیسہ بنت منیہ" کو اپنے گھر بلایا اور اس سے درخواست 52/79
نفیسہ نے حضرت محمد {ص} سے اس وقت ملاقات کی جب آپ {ص} کعبہ کا طواف بجا لانے کے بعد لوٹ رہے تھے- نفیسہ نے 53/79
"اے محمد {ص} آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟"
آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا
"خالی ہاتھ، شادی نہیں کی جاسکتی ہے"
نفیسہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا
"اگر میں کسی ایسی خاتون کا تعارف کراؤں جو جاہ و جمال اور شرافت میں آپ {ص} کی ہم پلہ ھو اور 54/79
حضرت محمد {ص} نے تھوڑا سا غور کرنے کے بعد فرمایا
"وہ کون ھوسکتی ہے؟"
نفیسہ نے جواب میں کہا
"خدیجہ؛"
حضرت محمد {ص} نے سوال کیا
"کیا وہ شادی کریں گی؟ میں نےتو سنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی 55/79
نفیسہ فوراً جناب خدیجہ {س} کے گھر پہنچیں اور انھیں حضرت محمد {ص} کی ان کے ساتھ شادی کرنے کی رضامندی کی خبر سنا دی-
حضرت محمد {ص} نے، جناب خدیجہ کی آپ {ص} سے شادی کرنے کی رضا 56/79
"میرے بھتیجے، ہمیں عربوں میں بدنام نہ کرنا، تم خدیجہ کے لائق نہیں ھو"
آنحضرت {ص} کے چچا عباس اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ھوئے اور ابو لہب سے تیز لہجے 57/79
"تم ایک پست اور بدکردار آدمی ھو، خدیجہ میرے اس بھتیجے کے بارے میں کون سا اعتراض کرسکتی ہیں- محمد {ص}، دلربا جمال و کمال کے مالک ہیں- خدیجہ کیسے اپنے آپ کو ان سے برتر ثابت کرسکتی ہیں- کیا مال یا کمال کی وجہ سے؟ کعبہ کے خدا کی قسم، خدیجہ جتنا بھی محمد سے 58/79
جناب ابوطالب اپنے بھائیوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ جناب خدیجہ کا نظریہ اور ان کی طرف سے ممکنہ شرائط معلوم کئے جائیں اور اس 59/79
جناب صفیہ، جناب خدیجہ کے گھر گئیں- جب جناب خدیجہ کو معلوم ھوا کہ 60/79
جناب خدیجہ نے یہ پوچھے بغیر کہ آپ نے کیا سنا ہے اور دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں، جواب میں کہا:
"جی ہاں، آپ نے صحیح سنا ہے، وہ عورت خوش قسمت ہے جو محمد {ص} کی شریک حیات بنے، 62/79
جناب صفیہ نے جناب خدیجہ کا دو ٹوک الفاظ میں جواب سن کر خوشی 63/79
"اے خدیجہ،خدا کی قسم آپ محمد {ص} سے محبت کرنے میں حق بجانب ہیں- ابھی تک کسی آنکھ نے آپ کے محبوب کے مانند کسی نور کو نہیں دیکھا ہے اور کسی کان نے ان کے کلام سے شیرین تر کلام نہیں سنا ہے"
اس کے بعد جناب صفیہ نے حضرت خدیجہ سے رخصت لی اور مسرت و شادمانی کی 64/79
ابولہب کے 65/79
28 سال ھجرت سے قبل { بعثت سے 15 سال قبل} 9 شوال 66/79
" حمد وثنا اس خداوند متعال کی جس نے ہمیں حضرت ابراھیم {ع} کا حاصل شدہ اور حضرت اسماعیل کی ذریت قرار دیا- اور ہمارے لئے ایک مقدس گھر تعمیر کیا جو حجاج کا مقصود اور امن و سلامتی کا حرم ہے کہ ہر چیز 68/79
میرا بھتیجہ، محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب، ایک ایسا مرد ہے، جس کا قریش کے مردوں میں سے کوئی مرد ہم پلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ان سے بلند تر ہے اور اس کا ان میں سے کسی کے ساتھ موازنہ نہین کیا جاسکتا ہے، 69/79
خطبہ پڑھنے کے بعد مہر کے بارے میں گفتگو ھوئی- حضرت خدیجہ {س} کے مہر کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں- ابن عباس نے خدیجہ {س} کا مہر بارہ " اوقیہ" ذکر کیا ہے- جبکہ سیرہ ابن ہشام میں بیس "بکرہ" ذکر کیا گیا ہے-
71/79
اس کے بعد جناب خدیجہ نے اپنے چچا سے مخاطب ھوکر کہا
"عمو جان! ممکن ہے دوسرے مسائل میں آپ اختیار رکھتے ھوں، لیکن یہاں پر خود مجھے اختیار ہے- اس کے بعد کہا:" اے محمد {ص}؛ میں نے اپنے آپ کو آپ {ص] 73/79
جناب ابوطالب نے حضار سے مخاطب ھوکر کہا
"گواہ رہنا کہ خدیجہ نے محمد {ص} کو اپنے شوہر کے عنوان سے قبول کیا اور مہر بھی اپنے ہی ذمہ لےلیا"
ابوجہل کھڑا ھوا اور غضبناک ھوکر حضار سے مخاطب ھوکر بولا
"تعجب کی بات ہے کہ 74/79
جناب ابوطالب غضبناک ھوگئے اور کھڑے ھوکر کہا
"جی ہاں، اگر کوئی مرد میرے بھتیجے کے مانند ھو تو عورتیں سب سے گراں قیمت مہر کو بھی اپنے ذمہ لیتی ہیں اور تم جیسے ھوں تو گراں قیمت مہر لئے بغیر ان سے ازدواج کے لئے آمادہ نہیں ھوتیں"
مہر 75/79
عقد کی تقریب ختم ھونے کے بعد، تمام مہمان اٹھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے- حضرت محمد {ص} بھی اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ گھر جانے کے لئے کھڑے ھوئے- جناب 76/79
"اپنے گھر کی طرف آئیے، کہ میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں بھی آپ کی کنیز ھوں"
اس کے بعد آنحضرت {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" اے محمد {ص}، اپنے چچا ابوطالب سے کہدیجئے 77/79
جناب ابوطالب نے دس اونٹ نحر کئے اور مکہ کے لوگوں کو کھانا کھلایا- اس طرح اس ولیمہ کے ذریعہ حضرت محمد {ص} کے عقد و شادی کی تقریب اختتام کو پہنچی-
شادی کے بعد آپ {س} کی ازدواجی زندگی، آپ {س} کا مسلمان ہونا اور پھر 78/79
اور جو احباب پہلی قسط نہیں پڑھ سکے وہ 👇یہاں سے پڑھ لیں
#پیرکامل
79/79