My Authors
Read all threads
#جشن_میلاد_امام_حسنؑ

آج 15 رمضان المبارک
❤ یوم ولادت باسعادت امام حسنؑ تمام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو ❤

حضرت امام حسنؑ امیر المومنین حضرت علیؑ کے بیٹے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بطن مبارک سے تھے۔

امام حسنؑ کی 1/33
ولادت 10 رمضان 3ھ کو مدینہ میں ہوئی ،آپ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ اپنے والد ماجد کے زیر 2/33
تربیت آ گئے تھے۔

رسولِ خداؐ کیلئے امام حسنؑ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسو ل کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔
مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری 3/33
دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوںگے بلکہ آپؐ کا دشمن ہوگا۔ دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا س یعنی امام حسنؑ و 4/33
حسینؑ کو قرار دیا گیا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارہا فرمایا تھا کہ حسنؑ و حسینؑ میرے بیٹے ہیں، اسی وجہ سے حضرت علیؑ اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ہو اور حسنؑ و حسینؑ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں۔

فرزند رسول حضرت امام 5/33
حسنؑ انسانی کمالات میں اپنے والد گرامی کا کامل نمونہ اور اپنے نانا کی نشانی تھے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ"
اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسنؑ و حسینؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں"

حضرت 6/33
عمرابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا
"ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں"
حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت 7/33
کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے
(حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )

نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت 8/33
مباہلہ گواہ ہے ۔

بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسنؑ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعا 9/33
کی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ۔

ولادت کے ساتویں دن سرکارکائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی
( اسدالغابۃ )

اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا
" آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟" 10/33
ٓامیرالمومنین ع نے عرض کی
"آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا"
پیغمبر ؐ نے فرمایا
"میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں"
چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لیکر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسنؑ رکھئے۔
تاریخ خمیس میں یہ 11/33
مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔

ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا س کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسنؑ و حسینؑ نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسنؑ سے 12/33
زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔حضرت امام حسنؑ رسول کریمؐ سے چہرے سے سینے تک اور امام حسینؑ سینے سے قدموں تک رسول ؐکی شبیہہ تھے ۔

روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نماز عشاء ادا کرنے کیلئے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ 13/33
آپؐ اس وقت آگے بڑھے (نماز کی امامت فرمانے کیلئے) اور ان کو زمین پر بٹھلایا ۔پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی۔ آپ ؐ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے (یعنی رسول کریم ؐ کے نواسے) آپ ؐ کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپؐ 14/33
حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپؐ نماز سے فارغ ہوگئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپؐ نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر کیوں فرمائی۔
آپؐ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں 15/33
جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد (کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔
(سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1146)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں دن کے ایک حصہ میں رسول اللہؐ کے ساتھ نکلا ،آپ حضرت فاطمہ ؓکی رہائش گاہ پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، کیا بچہ یہاں ہے؟ یعنی امام حسنؑ۔ 16/33
تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آگئے یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے کے گلے سے لپٹ گئے۔ آقا ومولیٰؐ نے فرمایا
"اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے''
(بخاری، مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ کا 17/33
ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسنؑ وحسینؑ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا
(فضائل الصحابہ)

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰؐ نے جناب حسنؑ کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا تو ایک آدمی نے کہا ،اے لڑکے ! کیا خوب 18/33
سواری پر سوار ہو۔ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ سوار بھی تو بہت خوب ہے۔
(ترمذی)
یہی حدیث حضرت عمر ابن خطابؓ ؓسے بھی روایت ہے (مسند بزار،مجمع الزوائد)

حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے کہ ایک رات میں کسی کام سے میں نبی کریمؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آقا ومولیٰ ؐ باہر تشریف لائے۔ آپ 19/33
ؐنے چادر میں کوئی چیز لی ہوئی تھی اور مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ وہ چیز کیا ہے۔
جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو عرض گزار ہوا،میرے آقا! آپؐ نے کس چیز پر چادر لپیٹی ہوئی ہے؟
آپؐ نے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ آپ ؐکی دونوں رانوں پر حسنؑ اور حسینؑ موجود ہیں۔ فرمایا، یہ دونوں میرے 20/33
بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں پس تو بھی اِن سے محبت رکھ اور اْن سے بھی محبت رکھ جو ان دونوں سے محبت رکھیں۔
(ترمذی، صحیح ابن حبان)

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐسے پوچھا گیا کہ اپنے اہل بیت سے آپ کو سب سے پیارا کون ہے؟ 21/33
فرمایا ، حسنؑ اور حسینؑ۔ آپؐ حضرت فاطمہ س سے فرمایا کرتے ، میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے۔
(ترمذی)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسنؑ اور حسینؑ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں 22/33
(ترمذی،مسند احمد)

سیدہ فاطمہ س سے روایت ہے کہ وہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو رسول کریم ؐ کے مرضْ الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ ؐ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین 23/33
میری جرات اور سخاوت کا وارث ہے۔
(طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)

فرزند رسول امام حسنؑ باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے تمام لوگ بھی آپ سے بے انتہا 24/33
محبت کرتے تھے۔

امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسن ؓ نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کردیا ہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔

امام حسنؑ نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔ اپنے بابا حضرت علیؑ کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو فوج میں آگے 25/33
آگے رہتے تھے۔

حضرت علیؑ نے 21رمضان کو شہادت پائی، اس وقت امام حسنؑ کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔
حضرت علیؑ کی تکفین و تدفین کے بعد جناب عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے جناب قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی 26/33
تعدادچالیس ہزارتھی، یہ واقعہ 21 رمضان 40 ھ یوم جمعہ کاہے
( ابن اثیر)

ابن عباس رض نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی . سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی لیکن آپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی 27/33
کہ
"اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی اور اگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی"
سب نے اس شرط کو قبول کرلیا. آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا۔
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد تقریباً چھ ماہ تک امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا۔آپ کا عہد بھی 28/33
خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے تو آپ نے تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا، کیونکہ امام حسنؑ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کااجراء چاہئے تھا۔

امام حسنؑ نے دین خدا کی سربلندی ،فتنہ وفساد کا سر کچلنے 29/33
،کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے نانا رسول خدا ؐ کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایسا ناقابل فراموش باب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔

امام حسنؑ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے 30/33
تھے ، لیکن حق کے مرکز اور تعلیمات محمدی ؐ کے سرچشمہ امام حسن کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لئے جعدہ بنت اشعث کو انعام و اکرام کا لالچ دے کرنواسہ رسول ؐ امام حسن کو زہر دے کر شہید کردیا گیا
( مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفداء ،روضۃالصفا ، حبیب السیر ،طبری 31/33
،استیعاب)

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ امام حسن ؑ کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔جسے لالچ دیا گیا تھا کہ اس کا نکاح یزید بن معاویہ سے کرادیا جائے گا۔
(سر الشہادتین )

رسول کے پیارے نواسے امام حسن ؑ نے 28 صفر 50ھ کو 32/33
جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
#پیرکامل
#جشن_میلاد_امام_حسنؑ
۔ 33/33
تصحیح: اس تھریڈ کی ٹویٹ نمبر 2 میں غلطی سے 10 رمضان لکھا گیا ہے جسے 15 رمضان پڑھا جائے، شکریہ🙏
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!