آج 15 رمضان المبارک
❤ یوم ولادت باسعادت امام حسنؑ تمام عالم اسلام کو بہت بہت مبارک ہو ❤
حضرت امام حسنؑ امیر المومنین حضرت علیؑ کے بیٹے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بطن مبارک سے تھے۔
امام حسنؑ کی 1/33
رسولِ خداؐ کیلئے امام حسنؑ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسو ل کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔
مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری 3/33
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارہا فرمایا تھا کہ حسنؑ و حسینؑ میرے بیٹے ہیں، اسی وجہ سے حضرت علیؑ اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ہو اور حسنؑ و حسینؑ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں۔
فرزند رسول حضرت امام 5/33
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ"
اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسنؑ و حسینؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں"
حضرت 6/33
"ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں"
حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت 7/33
(حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )
نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت 8/33
بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسنؑ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعا 9/33
ولادت کے ساتویں دن سرکارکائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی
( اسدالغابۃ )
اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا
" آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟" 10/33
"آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا"
پیغمبر ؐ نے فرمایا
"میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں"
چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لیکر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسنؑ رکھئے۔
تاریخ خمیس میں یہ 11/33
ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا س کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسنؑ و حسینؑ نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسنؑ سے 12/33
روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نماز عشاء ادا کرنے کیلئے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ 13/33
آپؐ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں 15/33
(سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1146)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں دن کے ایک حصہ میں رسول اللہؐ کے ساتھ نکلا ،آپ حضرت فاطمہ ؓکی رہائش گاہ پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، کیا بچہ یہاں ہے؟ یعنی امام حسنؑ۔ 16/33
"اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے''
(بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ کا 17/33
(فضائل الصحابہ)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰؐ نے جناب حسنؑ کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا تو ایک آدمی نے کہا ،اے لڑکے ! کیا خوب 18/33
(ترمذی)
یہی حدیث حضرت عمر ابن خطابؓ ؓسے بھی روایت ہے (مسند بزار،مجمع الزوائد)
حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے کہ ایک رات میں کسی کام سے میں نبی کریمؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔آقا ومولیٰ ؐ باہر تشریف لائے۔ آپ 19/33
جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو عرض گزار ہوا،میرے آقا! آپؐ نے کس چیز پر چادر لپیٹی ہوئی ہے؟
آپؐ نے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ آپ ؐکی دونوں رانوں پر حسنؑ اور حسینؑ موجود ہیں۔ فرمایا، یہ دونوں میرے 20/33
(ترمذی، صحیح ابن حبان)
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐسے پوچھا گیا کہ اپنے اہل بیت سے آپ کو سب سے پیارا کون ہے؟ 21/33
(ترمذی)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسنؑ اور حسینؑ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں 22/33
سیدہ فاطمہ س سے روایت ہے کہ وہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو رسول کریم ؐ کے مرضْ الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ ؐ! انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین 23/33
(طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد)
فرزند رسول امام حسنؑ باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے تمام لوگ بھی آپ سے بے انتہا 24/33
امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسن ؓ نے اکثر اپنا سارا مال راہ خدا میں تقسیم کردیا ہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔
امام حسنؑ نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔ اپنے بابا حضرت علیؑ کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو فوج میں آگے 25/33
حضرت علیؑ نے 21رمضان کو شہادت پائی، اس وقت امام حسنؑ کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔
حضرت علیؑ کی تکفین و تدفین کے بعد جناب عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے جناب قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور ان کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی 26/33
( ابن اثیر)
ابن عباس رض نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی . سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی لیکن آپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی 27/33
"اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی اور اگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی"
سب نے اس شرط کو قبول کرلیا. آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا۔
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد تقریباً چھ ماہ تک امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا۔آپ کا عہد بھی 28/33
لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے تو آپ نے تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا، کیونکہ امام حسنؑ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کااجراء چاہئے تھا۔
امام حسنؑ نے دین خدا کی سربلندی ،فتنہ وفساد کا سر کچلنے 29/33
امام حسنؑ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے 30/33
( مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفداء ،روضۃالصفا ، حبیب السیر ،طبری 31/33
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ امام حسن ؑ کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔جسے لالچ دیا گیا تھا کہ اس کا نکاح یزید بن معاویہ سے کرادیا جائے گا۔
(سر الشہادتین )
رسول کے پیارے نواسے امام حسن ؑ نے 28 صفر 50ھ کو 32/33