آں کلیم بے تجلی، آں مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
”وہ پیغمبر تو نہیں ہے لیکن اس کی بغل میں کتاب ہے“۔ ۔۔+1/13
یہی زمانہ تھا کہ جب افکار مودودی سےبھی ہماراتعارف ہوا،تحریک پاکستان کےمعماروں کےبارے میں بھی کچھ پڑھا،حسن البنا اور سید قطب کے بارے میں بھی کچھ آگاہی ہوئی، +3/13
1991ء کی بات ہے، ہم اقبال کے شیدائی ابھی بارہویں جماعت کے طالب علم تھے کہ ہمارے کالج میں ۔۔۔+6/13
نے ہمیں قائل کرلیا کہ مسلمانان عالم پر طاغوتی قوتوں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں عسکری تربیت حاصل کر لینا چاہیے۔
تربیت دینے کا یہ فریضہ مجاہدین۔۔۔+7/13
اور نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ
جمعیت کے ناظم کی سربراہی میں، جو ہمیں پشاور کچھ اور قائدین کے حوالے کر کے واپس چلے گئے تھے، میران شاہ سے ہوتے ہوئے افغانستان کے پہاڑوں میں قائم البدر ۳ کے کیمپ میں پندرہ دن کی۔۔+9/13
نجانے ہماری خوش قسمتی تھی یا بدقسمتی کہ اپنی کم زور جسمانی ساخت اور دھان پان سی نازک مزاج شخصیت کے باعث، ۔+10/13
نتیجہ یہ کہ ہمارے جذبہ شہادت کو
ہمارے بازو سے باندھ کر، جو پھول کر ہمارے باقی بدن کے برابر ہوچکا تھا، رسد لانے والی گاڑی پر واپس پشاور پہنچا دیا گیا۔ جہاں سے ہم خجالت کے مارے گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔ ۔۔+12/13
رشاد بخاری کے بلاگ "کیا علامہ اقبال اور سید مودودی آج بھی اہم ہیں؟" سے اقتباس