سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائی جو کرکٹ میچ کے جھگڑے میں نشانے پر آئے اور لوگوں نے ہجوم بنا کر انہیں قتل کیا، انہیں سولی دی، اکثریت تماشائی بنی رہی.
اورنگی ٹاؤن میں ٹینکی کھودنے والے پشتون مزدوروں کو منہ میں پستول ڈال کر گولیاں ماری گئیں
گلشن اقبال میں ڈی سیون روٹ کی بس میں ڈرائیور، کنڈکٹر، اور مسافر قتل ہوئے
میٹروویل میں گاڑیوں سے اتار کر مسافروں کے سر پر کیچڑ اور غلاظت ڈالی گئی
کیا پروین رحمان بنارس چوک کے بھرے بازار میں قتل نہیں ہوئی، اور اس قتل کے ماسٹر مائنڈز کے آلہ کار رحیم سواتی اور پپو کشمیری قید نہیں
کوئٹہ میں منی بس میں سوار خواتین کو شناخت کرکے قتل کیا گیا
یونیورسٹی استاد دن دہاڑے قتل ہوئے.
پشاور میں خواجہ سرا قتل ہوئے، لڑکیاں رقص کرنے یا نہ کرنے پر قتل ہوئیں
اور اکثریت تماش بین رہی
مشال کو بھی ایسے ایک ہجوم نے قتل کیا اور اکثریت تماشا دیکھتی رہی
ان کو موقع نہ دیں
جس نے ہزارہ ٹاؤن میں پشتون نوجوانوں پر حملے کیلئے پہلی آواز دی، پہلا پتھر اٹھایا، اور جو تماشائی بنے، سب کا جرم ایک سا نہیں
بڑے مجرم تو بندوق بردار تماشائی ہیں، جو ایسے وقت تشدد کی اجارہ داری میں اپنے چنیدہ لوگوں کو شریک کرتے ہیں
جنہوں نے آج بھی قاتلوں کو فرار کی راہ دکھانا چاہی ہے