My Authors
Read all threads
عمداً کیے گئے گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں یا نہیں؟
👇
اگر کوئی آدمی کسی گناہ کا ارتکاب کرے چاہے وہ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا اور چاہے جان بوجھ کرہو یا انجانے میں اگر وہ نزع کی حالت سے پہلے پہلے صدقِ دل سے اپنے اس گناہ پر نادم ہوکر توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس گناہ کو معاف فرمادیتے ہیں، گناہ کی معافی اور 👇
توبہ کی قبولیت کے لیے یہ لازم نہیں کہ آدمی نے برائی انجانے میں کی ہو، بلکہ عمداً   گناہ کا مرتکب بھی سچی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔👇
قرآنِ کریم میں  ارشادہے:

{اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰئِكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا} [النساء: 17]

👇
ترجمہ:" توبہ جس کا قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہ تو ان ہی کی ہے جو حماقت سے کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر قریب ہی وقت میں توبہ کرلیتے ہیں، سو ایسوں پر تو خدا تعالیٰ توجہ فرماتے ہیں ۔ اور اللہ خوب جانتے ہیں حکمت والے ہیں "۔

👇
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں:

👇
"کیا قصدو اختیار سے کیا ہوا گناہ معاف نہیں ہوتا":

 یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ مجید میں لفظ  "بجهالة"  کا وارد ہوا ہے، اس سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ انجانے اور نادانی سے گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو گی، جان بوجھ کر کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی، لیکن👇
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے جو تفسیر اس آیت کی بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ "جهالة"سے اس جگہ پر یہ مراد نہیں ہے کہ اس کو گناہ کے گناہ ہونے کی خبر نہ ہو ، یا گناہ کا قصد وارادہ نہ ہو، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو گناہ کے انجامِ بد اور اخروی عذاب سے غفلت 👇
اس گناہ پر اقدام کا سبب ہو گئی، اگرچہ گناہ کو گناہ جانتا ہو اور اس کا قصد و ارادہ بھی کیا ہو ۔
👇
دوسرے الفاظ میں جہالت کا لفظ اس جگہ حماقت و بے وقوفی کے معنی میں ہے، جیسا کہ خلاصۂ  تفسیر میں مذکور ہوا ہے، اس کی نظیر سورۂ یوسف میں ہے، حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا: {هل عملتم مافعلتم بیوسف واخیه اذ انتم جٰهلون} [۲۱:۹۸]👇
اس میں بھائیوں کو جاہل کہا گیا ہے، حال آں کہ انہوں نے جو کام کیا وہ کسی خطا یا نسیان سے نہیں، بلکہ قصد و ارادہ سے جان بوجھ کر کیا تھا، مگر اس فعل کے انجام سے غفلت کے سبب ان کو جاہل کہا گیا ہے۔👇
ابو العالیہ اور قتادہ نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر متفق تھے کہ "کل ذنب أصابه عبد فهو جهالة عمداً کان أوغیره"  ”یعنی بندہ جو گناہ کرتا ہے خواہ بلاقصد ہو یا بالقصد بہرحال جہالت ہے۔“👇
امام تفسیر مجاہد نے فرمایا: "کل عامل بمعصیة الله فهو جاهل حین عملها" ”یعنی جو شخص کسی کام میں اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ یہ کام کرتے ہوئے جاہل ہی ہے۔“ اگرچہ صورت میں بڑا عالم اور باخبر ہو ۔ (ابن کثیر)
اسی لیے حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ: "أمور الدنیا کلها جهالة"  ”یعنی دنیا کے وہ سارے کام جو اللہ تعالی کی فرماں برداری اور اطاعت سے خارج ہوں سب کے سب جہالت ہیں ۔“  اور وجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے والا تھوڑی دیر کی لذت کو ہمیشہ باقی رہنے والی لذت پر ترجیح دے رہا ہے 👇
اور جو اس تھوڑی دیر کی لذت کے بدلہ میں ہمیشہ ہمیشہ کا عذابِ شدید خریدے وہ عاقل نہیں کہا جا سکتا، اس کو ہر شخص جاہل ہی کہے گا، اگرچہ وہ اپنے فعلِ بد کو جانتا ہو اور اس کا قصد و ارادہ بھی کر رہا ہو ۔👇
آیتِ مذکورہ میں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ اس میں قبولِ توبہ کے لیے یہ شرط بتلائی ہے کہ قریب زمانہ میں ہی توبہ کر لے، توبہ کرنے میں دیر نہ کرے، اس میں قریب کا کیا مطلب ہے، اور کتنا زمانہ قریب میں داخل ہے؟ 👇
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر ایک حدیث میں خود اس طرح بیان فرمائی ہے:👇
"إن الله یقبل توبة العبد مالم یغرغر"،  حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ”اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس پر موت اور نزعِ روح کا غرغرہ طاری نہ ہو جائے۔“👇
اور محدث ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بندہ مؤمن موت سے ایک مہینہ پہلے اپنے گناہ سے توبہ کرے، یا ایک دن یا ایک گھڑی پہلے توبہ کرے، تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرمائیں گے، 👇
بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ سچی توبہ کی گئی ہو۔ (ابن کثیر)
خلاصہ یہ کہ "من قریب"  کی تفسیر جو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی پوری عمر کا زمانہ قریب ہی میں داخل ہے، موت سے پہلے پہلے جو توبہ کر لی جاوے قبول ہوگی۔ البتہ غرغرۂ  موت کے وقت کی توبہ مقبول نہیں ۔👇
اس کی توضیح جو حضرت حکیم الامت تھانوی نے تفسیر بیان القرآن میں بیان فرمائی ہے کہ موت کے قریب دو حالتیں پیش آتی ہیں، ایک تو ایاس و ناامیدی کی جب کہ انسان ہر دوا و تدبیر سے عاجز ہو کر یہ سمجھ لے کہ اب موت آنے والی ہے، اس کو حالت "یاس" بالیاء سے تعبیر کیا گیا ہے، 👇
دوسری حالت اس کے بعد کی ہے، جب کہ نزعِ روح شروع ہو جائے اور غرغرہ کا وقت آ جائے، اس حالت کو  "باس" بالباء کہا جاتا ہے، پہلی حالت یعنی حالتِ یاس تک تو  "من قریب" کے مفہوم میں داخل ہے اور توبہ اس وقت کی قبول ہوتی ہے، مگر دوسری حالت یعنی حالتِ باس کی توبہ مقبول نہیں، 👇
جب کہ فرشتے اور عالمِ آخرت کی چیزیں انسان کے سامنے آ جائیں؛ کیوں کہ وہ "من قریب" کے مفہوم میں داخل نہیں۔👇
اس آیت میں "من قریب"  کا لفظ بڑھا کر اس کی طرف اشارہ کر دیا گیا کہ انسان کی ساری عمر ہی ایک قلیل زمانہ ہے اور موت جس کو وہ بعید سمجھ رہا ہے اس کے بالکل قریب ہے۔

قریب کی یہ تفسیر جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی گئی ہے، دوسری آیت میں 👇
خود قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ فرما دیا ہے، جس میں یہ بتلایا ہے کہ موت کے وقت کی توبہ مقبول نہیں ۔

👇
خلاصہ مضمونِ آیت کا یہ ہو گیا کہ جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے خواہ جان بوجھ کر قصد وارادہ سے کرے یا خطا و ناواقفیت کی بنا پر کرے، وہ بہرحال جہالت ہی ہوتا ہے، ہر ایسے گناہ سے انسان کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لے لیا ہے بشرطیکہ موت سے پہلے پہلے سچی توبہ کر لے۔

👇
اپنے ذمہ لے لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کا وعدہ فرما لیا ہے جس کا پورا ہونا یقینی ہے، ورنہ اللہ تعالی کے ذمہ کوئی فرض واجب یا کسی کا حق لازم نہیں ہوتا، پہلی آیت میں تو اس توبہ کا ذکر تھا جو اللہ تعالی کے نزدیک قابل قبول ہے، 👇
دوسری آیت میں اس توبہ کا بیان ہے جو قابل قبول نہیں ۔

اس میں بیان فرمایا کہ ان لوگوں کی توبہ قابلِ قبول نہیں جو عمر بھر جرأت کے ساتھ گناہ کرتے رہے اور جب موت سر پر آ پہنچی اور نزعِ روح شروع ہو گیا، موت کے فرشتے سامنے آ گئے، اس وقت کہنے لگے کہ ہم اب توبہ کرتے ہیں، 👇
انہوں نے فرصتِ عمر گنوا کر توبہ کا وقت کھو دیا، اس لیے ان کی توبہ مقبول نہیں ہو گی، جیسے فرعون اور آلِ فرعون نے غرق ہونے کے وقت پکارا کہ ہم ربِ موسی و ہارون پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو جواب ملا کہ کیا اب ایمان لاتے ہو جب ایمان لانے کا وقت گزر چکا ؟

👇
اور یہی مضمون آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا ہے: ان لوگوں کی توبہ بھی قابل قبول نہیں جن کو حالتِ کفر پر موت آ گئی اور عین نزعِ روح کے وقت ایمان کا اقرار کیا، یہ اقرار و ایمان بے وقت اور بے سود ہے، ان کے لیے عذاب تیار کر لیا گیا ہے۔
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Keep Current with Muddassar Rashid

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!