👇
{اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰئِكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا} [النساء: 17]
👇
👇
👇
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ مجید میں لفظ "بجهالة" کا وارد ہوا ہے، اس سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ انجانے اور نادانی سے گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو گی، جان بوجھ کر کرے تو توبہ قبول نہیں ہو گی، لیکن👇
👇
قریب کی یہ تفسیر جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی گئی ہے، دوسری آیت میں 👇
👇
👇
اس میں بیان فرمایا کہ ان لوگوں کی توبہ قابلِ قبول نہیں جو عمر بھر جرأت کے ساتھ گناہ کرتے رہے اور جب موت سر پر آ پہنچی اور نزعِ روح شروع ہو گیا، موت کے فرشتے سامنے آ گئے، اس وقت کہنے لگے کہ ہم اب توبہ کرتے ہیں، 👇
👇