رجوع الی اللہ اورتوبہ کی اہمیت اورفضیلت
(دوسری قسط)
حقوق اللہ اورحقوق العباد کی تلافی
جو چیزیں حقوق اللہ یا حقوق العباد میںسے اپنے ذمہ لازم ہوںاُن کی تلافی کرنابھی توبہ کاایک اہم جزو ہے،بہت سے لوگ توبہ کرلیتے ہیں،لیکن👇
اس جزوکی طرف متوجہ نہیں ہوتے ،حالانکہ اس کے بغیرتوبہ، حقیقی توبہ نہیںہوتی ،حقوق ادانہ کرنااورتوبہ زبانی کرکے مطمئن ہوجانااپنے نفس پرظلم ہے اورآخرت کے حساب سے نڈرہونا ہے،حقوق کی تلافی کی کچھ تفصیل اورطریق کارہم ذیل میں لکھتے ہیں:
حقوق اللہ کی ادائیگی
👇
حقوق اللہ کی ادائیگی کامطلب یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے جن فرائض کو ترک کیاہو اورجن واجبات کوچھوڑاہو،ان کی ادائیگی کی جائے،نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ سب کی تلافی کرنالازم ہے۔
👇
قضانمازیں
زندگی میں جونمازیں قصدًا یاسہوًا چھوٹ گئی ہوںیامرض اور سفر وغیرہ میں رہ گئی ہوں(حالانکہ نمازکسی بھی حال میں چھوڑناسخت گناہ ہے)ان سب کواہتمام سے اداکرنالازم ہے اوراُن کی ادائیگی کاطریقہ یہ ہے کہ یوں حساب لگائے کہ جب سے میں بالغ ہواہوں میری کتنی نمازیں چھوٹی ہوںگی؟
👇
ان نمازوں کااس قدراندازہ لگائے کہ دل گواہی دیدے کہ اس سے زیادہ نہیںہوںگی،پھران سب نمازوں کی قضاپڑھے،عوام میں یہ جو مشہورہے کہ حرم شریف،جمعۃ الوداع یاکسی اوردن یارات میں قضائِ عمری کے نام سے دورکعت پڑھنے سے سب چھوٹی ہوئی نمازیںادا ہوجاتی ہیں،بالکل غلط ہے۔👇
قضا نمازوں کاوقت
قضانمازوں کے لئے کوئی وقت مقررنہیں ہے،بس! یہ دیکھ لے کہ سورج نکلتاچھپتانہ ہواورزوال کاوقت نہ ہو،سورج نکل کے جب ایک نیزہ بلند ہوجائے،جس کااندازہ سورج نکلنے سے کم ازکم دس منٹ ہے، توقضانمازیں اور نوافل سب پڑھناجائزہوجاتاہے اور👇
نمازِ فجر کے بعداورنمازِعصرکے بعد بھی قضاپڑھنا درست ہے، البتہ جب سورج غروب ہونے سے پہلے جب آفتاب میں زردی آجائے اُ س وقت قضا نہ پڑھے۔
ہرایک دن کی پانچ فرض نمازیں اورتین رکعت نمازِوتریعنی کل بیس رکعت بطورِقضاپڑھ لے اوریہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ 👇
جتنی نمازیں قضاہوںان کواداکریں
اوریہ بھی سمجھ لیں کہ ضروری نہیںکہ جونمازیںقضاہوئی ہوں، تعداد میں سب برابرہوں،کیونکہ بعض لو گ نمازیں پڑھتے بھی رہتے ہیں،چھوڑتے بھی رہتے ہیں،بہت سے لوگ سفرمیںنمازنہیں پڑھتے، عام حالات میں پڑھ لیتے ہیںاوربہت سے لوگ مرض میں نمازچھوڑ بیٹھتے ہیں،👇
کچھ لوگوں کی فجرکی نماززیادہ قضاہوجاتی ہے،کچھ لوگ عصرکی نمازیں زیادہ قضاکردیتے ہیں،پس جونمازجس قدرقضاہوئی ہو،اس کا زیادہ سے زیادہ اندازہ لگاکروہ نمازپڑھ لی جائے۔👇
عوام میں جویہ مشہورہے کہ ظہرکی قضانمازظہرہی میں پڑھی جائے،یہ درست نہیں ہے،جس وقت کی جس وقت چاہیں، اداکرسکتے ہیںاورایک دن میں کئی کئی دن کی نمازیں بھی اداہوسکتی ہیں، اگر قضا نمازیں پانچ سے زیادہ ہوجائیں تو ترتیب واجب نہیں رہتی، جونسی نماز پہلے پڑھ لی جائے درست ہوجائے گی،مثلاً 👇
اگرعصرکی نماز پہلے پڑھ لی اور ظہرکی بعد میں پڑھی تو اس طرح بھی ادائیگی ہوجائے گی۔
بجائے نفلوں کے قضانمازیں پڑھیں👇
بجائے نفلوں کے قضانمازیں پڑھیں
بہت سے لوگ نفلوں کااہتمام کرتے ہیںاوربرس ہا برس کی قضا نمازیںاُن کے ذمہ ہیں،اُن کوادانہیں کرتے،یہ بہت بڑی بھول ہے اور غلطی ہے،نفلوں اورغیرمؤکدہ سنتوں کی جگہ بھی قضا نمازیں ہی پڑھ لیاکریںاوران کے علاوہ بھی قضانمازوں کے لئے وقت نکالیں،👇
اگر پوری قضانمازوں کواداکئے بغیرموت آگئی تومؤاخذاہ کاسخت
حطرہ ہے
👇
قضانمازوں کی نیّت
جب نمازوں کی تعداد کابہت احتیاط کے ساتھ اندازہ لگالیاتو چونکہ ہرنمازکثیرتعدادمیںہے اوردن تاریخ یاد نہیں،اس لئے حضرات فقہائے کرام نے آسانی کے لئے یہ طریقہ بتایاہے کہ جب بھی کوئی نماز پڑھنے لگے تو👇
یوں نیّت کرلیاکرے کہ میرے ذمّہ (مثلاً)ظہرکی جوسب سے پہلی نمازفرض ہے اس کواللہ تعالیٰ کے لئے اداکرتاہوں، جب بھی نمازِظہراداکرنے لگے اسی طرح نیت کرلیاکرے اوردیگرنمازوںمیں بھی اسی طرح نیت کرے،ایساکرنے سے ترتیب قائم رہے گی،کیونکہ اگرکسی کے ذمہ ظہرکی ایک ہزار نمازیں قضاتھیں تو👇
ہزارویں نماز(ابتداکی جانب) سب سے پہلی نماز تھی اوراس کوپڑھنے کے بعداُس کے بعد والی سب سے پہلی ہوگی اورجب تیسری بھی پڑھ لی جائے گی تو اس کے بعد والی سب سے پہلی ہوگی،اس کوخوب سمجھ لو۔👇
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
دوسری بات ہم نے آپ سے عرض کی تھی، ذکر اللہ ، ذکر اللہ کا اہتمام کریں ، ذکر اللہ کے حوالے سے آپ علماء کے بڑے قیمتی بیانات سنیں گے، بڑی بڑی قیمتی باتیں آپ کو سننے میں ملیں گی، میں بھی کئی کئی مرتبہ اس عنوان پر کئی اعتبار سے بیان کیا کرتاہوں ، لیکن 👇
آج میں آپ سے ایک اور عنوان سے بات کرتا ہوں۔ قرآن نے کہا ہے۔
ولذکر اللہ اکبر (العنکبوت:45)
اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل کائنات، یہ پوری کی پوری دنیا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کے میدان، اس کے کوہسار، اس کے درخت، اس کے کھیت،👇
اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے،ایک میں نہیں کر رہااور آپ نہیں کر رہے اور جب تک یہ ذکر رہے گا یہ دنیا رہے گی اور جب یہ ذکر نہیں رہے گا یہ دنیا نہیں رہے گی۔
کوئی بھی دل کے احوال کی طرف متوجہ نہیں ہے ، جب کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دل ٹھیک سب ٹھیک، دل خراب سب خراب“۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس مسئلہ کا ”کہ دل ٹھیک ہو جائے، حالات ٹھیک ہو جائیں“، دل کا اعراض ختم ہو جائے، اور دل کا بگاڑ ختم ہو جائے۔
👇
دل کی اصلاح کے لیے دو کام
اس کے لیے دو کام ہیں:
ایک صحبتِ اہل اللہ
اور
دوسرا کثرتِ ذکر اللہ۔
آپ کو معلوم ہو گا، آپ خوب جانتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، اور عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، اصحاب بیعت رضوان، 👇
فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے، فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے ،رضی اللہ عنہم اجمعین یہ سب کون ہیں؟ صحابی ہیں ، ہیں نا؟ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے مرید تھے یا نہیں ؟یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے شاگرد تھے یا نہیں؟لیکن نہیں کہا گیا کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ارادت مند ہیں۔ 👇
مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال مرحوم اس لحاظ سے تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت ہیں کہ ہر باطل گروہ نے ان کے متنوع کلام میں سے اپنے مطلب کی باتیں نکال کر انہیں اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے:
جیسے
اشتراکیت کے پرچار میں ان کا کلام پیش کیا جاتا ہے
👇
حدیثِ رسولؐ کے منکرین نے انکارِ حدیث کے لیے علامہ اقبالؒ کے کلام کا سہارا لیا ہے،
اور تو اور قرآن و سنت کو چودہ سو سالہ اجماعی تعامل اور تشریح سے الگ کر کے منتخب پارلیمنٹ کے حوالہ کر دینے کی فتنہ انگیز فکر کی بنیاد بھی علامہ اقبال کے بعض خطبات کو بنایا گیا تھا
👇
پھر الزام لگایا جاتا ہے
علماء نے اجتہاد کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور وہ مختلف فرقوں اور فقہوں میں بٹ گئے ہیں اس لیے ان میں اجتہاد کی اہلیت نہیں رہی۔
جدید دور میں شریعت کی تعبیر اور اجتہاد کا حق منتخب پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔
دین کی اجماعی تعبیر جو حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کے چودہ سو سالہ تعامل کی صورت میں چلی آرہی ہے اس تعبیر و تشریح سے ملت اسلامیہ کو ہٹانے اور قرآن و سنت کو جدید تعبیر و تشریح کی سان پر چڑھانے کے لیے استعماری قوتیں اپنے آلۂ کار عناصر کے ذریعے 👇
ایک عرصہ سے مسلم معاشرہ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ نصف صدی قبل تک بیشتر مسلم ممالک پر سامراجی قوتوں کے غلبہ و استعلاء کے دور میں سامراجی آقاؤں نے مسلسل سازشوں اور محنت کے باوجود جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کو دین کی بنیاد قرآن و سنت سے برگشتہ کرنا ممکن نہیں ہے تو 👇
انہوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی اور صریح کفر کی بجائے الحاد و زندقہ کے راستہ سے مسلمانوں کو ان کے دین سے ہٹانے کے لیے فکری فتنوں کا دروازہ کھول دیا۔ ان تمام فتنوں کا بنیادی ہدف قرآن و سنت کی چودہ سو سالہ اجماعی تعبیر و تشریح اور امتِ مسلمہ کا اجماعی تعامل راہ ہے 👇
غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو وہاں کس طرح رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہم اپنی معروضات کو درج ذیل دائروں میں پیش کریں گے۔👇
امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے جو وہاں ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں جس کے ذریعے انہیں وہاں کا ویزا اور رہنے کی اجازت ملی ہے، انہیں اس معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے۔
👇
غیر مسلم ممالک میں رہتے ہوئے اپنے عقیدہ و ایمان، شرعی فرائض و واجبات کی ادائیگی اور اپنی اگلی نسل کے ایمان و اعمال کی حفاظت کا اہتمام کرنا مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر کسی غیر مسلم ماحول میں وہ اپنے دینی فرائض و احکام پر عمل نہیں کر سکتے یا 👇
ہمارے ہاں جب پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما سمیت یہ خطہ، جو برصغیر کہلاتا ہے، متحد تھا اور مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہی بحث و مباحثہ اس قسم کے عنوانات سے ہوتا تھا کہ یہاں رہنے والے ذمی ہیں یا معاہد ہیں اور یہاں کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی ہیں👇
۔ اس علاقہ میں اسلام مجاہدین کی جنگوں کے ذریعے بھی آیا ہے، صوفیاء کرام کی دعوت و اصلاح کی محنت سے بھی آیا ہے اور تاجروں کی آمد ورفت بھی فروغِ اسلام کا ذریعہ بنی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاد کے ذریعے مغلوب ہونے والے لوگوں اور علاقوں کی حیثیت از خود مسلمان ہوجانے والے لوگوں اور 👇
علاقوں سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اس حوالہ سے یہاں ہمارے فقہی مباحث کا ایک وسیع دائرہ ماضی کے علمی ذخیرہ میں ملتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ مدنی دور میں ہمیں اس سلسلہ میں مختلف صورتیں دکھائی دیتی ہیں: