ہارون الرشید کے دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا۔ اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔ ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں‘اس نے غلے کے گودام کھول دئیے‘ ٹیکس معاف کر دئیے‘👇🏻
ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا‘ اسے نیند نہیں آ رہی تھی‘ ٹینشن کے اس عالم میں اس نے اپنے👇🏻
آپ اگراجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دہرا دوں“بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا”یا استاد فوراً فرمائیے۔ میری جان حلق میں اٹک رہی ہے“👇🏻
شیر نے بچہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا‘ بندریا سفر پر روانہ ہوگئی‘ اب شیر روزانہ بندر کے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام کرتا رہتا۔ ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا👇🏻
شیر نے شرمندگی سے جواب دیا‘تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے‘ بندریا کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا ”تم کیسے بادشاہ ہو‘ تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکے‘ تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاﺅ گے“شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا👇🏻
یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر👇🏻
دنیا میں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں‘آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں۔👇🏻
یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید کو کہا تھا👇🏻
آپ فقیر بن جائیے۔
اللہ کے حضور گر جائیے
اس سے توبہ کیجئے‘
اس سے مدد مانگیے۔
دنیا کے تمام مسائل اوران کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے👇🏻
لیکن افسوس ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے سات سمندر پار تو جا سکتے ہیں لیکن ماتھے اور جائے نماز کے درمیان موجود چند انچ کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے....
#قلمکار