آپؒ نے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑ ے👇🏻
حضرت خالد بن ولیدؓ نے کس طرح وعدے کی پاسداری کی*
سلسلہ چلتا رہا ‘ آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا👇🏻
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا تو شہزادی نے دھوبن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟دھوبن نے جواب دیا کہ شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں،👇🏻
شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آ گئی۔پھر اس نے سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی اور مقتول محبت کی قبر پر سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر اس کا یہ معمول رہا کہ👇🏻
یہ بات سنانے کے بعد حضرت کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہوسکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟ ، ایک انسان سے محبت اگر انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے👇🏻
مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے👇🏻
مگر ہم غافل ہیں ۔
پھر فرماتے اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی کے بچے کا دل پھٹ گیا تھا،👇🏻