ساتھ میں ملتے جلتے نام سے میں ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن نام کا ایک ادارہ بنا لوں۔
اب میں بطور مشیر وزیراعظم اور سرکاری ملازم دنیا بھر میں سفر کروں۔ بزنس کمیونٹی اور سیاسی لوگوں سے ملوں۔
انکو بتاؤں کہ میں ڈیجیٹل پاکستان کے لئے
پھر کہوں کہ آپ سب لوگوں کو اس پراجیکٹ میں حصہ ڈالنا چاہئے۔
جب لوگ بینک اکاؤنٹ مانگیں تو میں ان کو ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن کا دوں۔
مطلب ایک مشیر جو تمام سرکاری وسائل خرچتا اور ملاقات میں جو پیسہ اکٹھا کرتا وہ ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن کو جاتا
میں سفر اور رہائش کے خرچے سے لے کر سیاسی اثر و رسوخ استعمال کروں اپنی این جی او کو پیسے دلوانے کے لیے جس کا نام میں نے جان بوجھ کر سرکاری پراجیکٹ والا ہی رکھا ہو ۔
جب کوئی پوچھے تو میں کہہ دوں کہ بھائی وہ تو صرف ایک این جی او ہے۔
مگر یہ نا بتاؤں کہ اس این جی او کا سرکار پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر ہم نے اسکا نام سرکار پاکستان کے پراجیکٹ والا رکھا ہے۔
جبکہ اصولی طور پر ہم سرکار سے تنخواہ لے رہے اور ہم چونکہ سرکاری وسائل استعمال کر رہے بطور سرکاری ملازم تو پیسہ ہمیں سرکاری پراجیکٹ کو دلوانا چاہئے۔
دوسرا میں بطور سرکاری ملازم ایک عدالتی سزا یافتہ شخص کے ساتھ این جی او بناؤں تو کیا میرا عمل شفاف ہے؟
تانیہ ایدرس بھی باقی سب امپورٹڈ مشیران اور ماہرین کی طرح مال بنا کر فرار ہو جائے گی۔
تب بھی بات ہوئی تھی کہ
کیسے ایک یوتھیا کو جھوٹی مارکیٹنگ کر کہ پیسہ ڈکارنے کے لئے لایا گیا ۔
یوتھیے اچھل رہے تھے کہ جہانگیر ترین گوگل سے بندی لے آیا۔