⬅ شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔
⬅ دو صوبوں کے انگریزی ناموں کے سپیلنگز میں تبدیلی کے تحت Baluchistan کو Balochestan اور Sind کو Sindh کیا گیا ہے۔
⬅ آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
⬅ آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
⬅ بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2) بی جو فوجی آمر ضیا الحق نے متعارف کروائی تھی اور بعد ازاں ایک اور آمر پرویز مشرف کے دور میں اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
⬅ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار جیوڈیشل کمشن اور پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
(اس ترمیم کو چیلنج کردیا گیاتھا اور چندتبدیلیوں کے ساتھ 19ویں ترمیم کاحصہ بنایاگیا)
⬅ صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
قومی فنائنس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔
سے اہم معاملہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ اب ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔
ایک اور بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ
#اٹھارویں_ترمیم
(ان ترامیم کو پڑھیں، سمجھیں اور سوال اٹھائیں کہ ان ترامیم میں ایسا کیا ہے؟کہ چند وردی پوش اور وردی پوشوں کی خواہش پر ایوانِ اقتدار پر مسلط کچھ گماشتے اس ترمیم کو ختم یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں)