پاکستانی حکومت مختلف ٹیکسز اور محصولات کی مد میں جو آمدنی اکٹھی کرتی ہے اس کی مرکز اور صوبوں میں تقسیم کے لیے جو کمیشن بنایا جاتا ہے اسے قومی مالیاتی کمیشن یا نیشنل فنانس کمیشن کہتے ہیں جو حرفِ عام میں این ایف سی ایوارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے.
کمیشن میں وفاق اور چاروں صوبوں کے دو دو ارکان نمائندگی کرتےہیں اورہر صوبائی وزیر خزانہ اس کاسرکاری رکن ہوتاہے جبکہ اس کےعلاوہ ہرصوبےسےایک غیرسرکاری رکن کی تقرری صدرمملکت صوبائی حکومتوں کی سفارش پرکرتےہیں۔
2010 میں پپل پارٹی کی حکومت نے ساتواں این ایف سی ایوارڈ جاری کیا تھا، اس کے بعد آٹھویں اور نویں کمیشن میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق ہی جاری کیا گیا.
پاکستان پپل پارٹی کے دورحکومت میں 2010 میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تھا جو صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت تھی.
اس سے قبل وسائل کا سب سے بڑا حصہ وفاق کو جاتا تھا اور صوبوں کو شکایت ہوتی تھی کہ ان کے پاس عوامی منصوبوں اور امور مملکت چلانے کے لیے مالی وسائل ہی نہیں ہوتے۔
ساتویں ایوارڈ سے قبل صوبے آپس میں رقم آبادی کے لحاظ سے تقسیم کرتے تھے، اس لیے کم آبادی والے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور سندھ کو شکوہ ہوتا تھا کہ ان کو کم رقم ملی ہے.
جو وفاقی بجٹ پر ناروا بوجھ ہیں.