لوگوں میں سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا
میرے پاس
تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا کہ علم کو اللہ کی طرف منسوب کیوں نہیں کیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی
بحرین جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے جس کے پاس آپ سے زیادہ علم ہے۔
موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا
اے رب ! میں کس طرح اس کے پاس پہنچوں گا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
زنبیل میں ایک مچھلی رکھ کر چل دو جہاں وہ کھوجائے گی وہیں وہ شخص آپ کو ملے
پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لیا اور زنبیل میں مچھلی رکھ کر چل دیئے، یہاں تک کہ ایک ٹیلے کے پاس پہنچے تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم دونوں لیٹ گئے اور سوگئے۔
مچھلی زنبیل میں کودنے لگی۔
یہاں تک کہ نکل کر دریا میں گرگئی۔
اللہ تعالیٰ
جب کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بھول گئے کہ انہیں مچھلی کے متعلق بتائیں
قرآن کی سورۃ کہف میں یہ واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، جس میں خدا کے ایک بندے (مفسرین کی اکثریت کے نزدیک) سے مراد "خضر"
قرآن میں اللہ اس واقعہ کو یوں بیان فرماتا ہے:
"اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ
جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول
جب آگے چلے تو (موسیٰ نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ
ہمارے لئے کھانا لاؤ، اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے
(اس نے) کہا کہ
بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا اور مجھے (آپ سے) اس
(موسیٰ نے) کہا
یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے
تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے (وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت
موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ
جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
(خضر نے) کہا کہ
تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے اور جس بات کی
(موسیٰ نے) کہا
خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پایئے گااور میں آپ کے ارشاد کے خلاف نہیں کروں گا
(خضر نے) کہا کہ
اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہو تو (شرط یہ ہے) مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر تم سے نہ کروں
تو دونوں
یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کو پھاڑ (سوراخ کر) ڈالا۔
(موسیٰ نے) کہا
کیا آپ نے اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کردیں یہ تو آپ نے بڑی (عجیب) بات کی
(خضر نے) کہا
کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے
(موسیٰ نے) کہا کہ
جو بھول
پھر دونوں چلے
یہاں تک کہ (رستے میں) ایک لڑکا ملا تو (خضر نے) اُسے مار ڈالا
(موسیٰ نے) کہا کہ
آپ نے ایک بےگناہ شخص کو ناحق بغیر قصاص کے مار ڈالا۔ (یہ تو) آپ نے بری بات کی
(خضر نے) کہا
کیا میں نے
انہوں نے کہا کہ
اگر میں اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیئے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے
پھر دونوں چلے
یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان
انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا
پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی
(خضر نے) اس کو سیدھا کر دیا
موسیٰ نے کہا
اگر آپ چاہتے تو ان سے (اس کا) معاوضہ لیتے (تاکہ کھانے کا کام چلتا)
(خضر نے) کہا اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی
(کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوتا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچّہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں اور محبت میں
اور وہ جو دیوار تھی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی (جو) شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپنا خزانہ نکالیں، یہ تمہارے پروردگار کی
یہ ان باتوں کا راز ہے جن پر تم صبر نہ کرسکے"
(سورة الكهف: 60-83)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہماری چاہت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کچھ دیر اور صبر کرتے تاکہ ہمیں ان کی عجیب وغریب خبریں سننے کو ملتیں۔
پھر نبی