لگ بھگ پینتیس برس پہلے کی بات ہے۔ انڈیا پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک جنرل ضیاء انڈیا میچ دیکھنے پہنچ گئے۔ تب سوشل میڈیا تھا نہیں اور مین سٹریم میڈیا فقط اخبارات تک محدود تھا۔ اسی کے توسط سے کچھ لوگوں نے ہمیں بتایا👇🏻
ہم نے بھی یقین کرلیا، 16 برس کی عمر ایسے یقین آسانی سے کر لیتی ہے۔ کئی کلینڈر بدلے اور جنرل ضیاء کو دنیا سے گئے کئی سال ہوچکے تو ایک دن ہمارے سامنے انڈیا ٹوڈے کا شمارہ اور سابق بھارتی سفارتکاروں کی کتب آئیں جن سے پتہ چلا👇🏻
جب نائن الیون ہوا تو ایک بار پھر ہمیں بتایا گیا
"پاکستان امریکہ کے آگے لیٹ گیا"👇🏻
"ہم لیٹے ہوئے ہیں"
مگر ایک دن ہم نے ان گنہگار آنکھوں سے کلفٹن کے ساحل پر ملا داداللہ کو غروب آفتاب کا نظارہ کرتے دیکھ لیا۔ ہم مسکرائے، ہم لوٹ آئے، ہم نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔ اور انتظار شروع کردیا وہ وقت آنے کا جب دشمن کی ہی صفوں سے ہمارے نہ لیٹنے کا👇🏻
اسی میڈیائی یلغار کو بنیاد بنا کر امریکہ و برطانیہ ہمیں یقینی طور پر لٹانے میں جت گئے مگر ہم نہ لیٹے۔ تنگ آکر انہوں نے فرمائش شروع کردی👇🏻
ہم نے کامل معصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یقین دلادیا
"ہم حقانی کو لٹانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے"
وہ خوش ہوئے، وہ چل دیئے۔ مگر نے سراج حقانی کی جگہ حسین حقانی کو لٹا دیا، تو ان کے طوطے اڑ گئے۔👇🏻
"اگر تم لوگوں نے نہیں لیٹنا، تو پھر ہمیں نکلنے کا محفوظ راستہ دو کیونکہ ہم بھی لیٹنا نہیں چاہتے"
ہم نے ان کے پہلی بار یہ مطالبہ کرنے کے بعد بھی انہیں افغانستان میں 10 سال لٹائے رکھا۔👇🏻
ہم سعودیوں کے آگے لیٹ گئے
ان بچوں کو بتاتی چلوں کہ پاکستان کا مستقبل سورج کی طرح روشن ہے ہر طرف صرف پاکستان ہی پاکستان ہوگا
بس دیکھتے جاؤ. نا پہلے کبھی وقت سے پہلے کچھ کہا نا اب کہا جائے گا تم بھی دیکھو گے کہ کون لیٹا تھا اور کس کو لٹائیں گے.👇🏻