حسن صاحب ہر طرح سے باکمال بندے تھے مگر جب ہر سال ادارے میں ”اچیومنٹ ایوارڈز” کا اعلان ہوتا تھا۔ تو ایوارڈز لینے والوں کی لسٹ میں⬇️
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دبنگ قسم کے جج صاحب ہوا کرتے تھے۔ محترم جج صاحب کے پاس ایک مدبھرا ”ببلو” نامی بیل تھا جو کہ انھیں⬇️
کہتے ہیں ایک دفعہ جج صاحب کا یہ چہیتا ببلو غصے میں عدالت پر بھی چڑھ دوڑا اور عدالت کا⬇️
جج صاحب کے پڑوس میں ایک غریب تیلی رہتا تھا۔ کولھو کو چلانے کے لیے تیلی نے بھی ایک بیل رکھا ہوا تھا۔ جج صاحب کا دلارا ببلو اکثر کھونٹے سے بندھے ہوے تیلی کے بیل کے ساتھ سینگ آزمائی کرتا تھا⬇️
”قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے” والی مثل کی مناسبت سےببلو میاں⬇️
شہر میں واپسی کے بعد ببلو نے چند دن تو زندگی بڑی شریفانہ انداز میں گزاری اور اصول پسندی کا لبادہ اوڑ کر پھرتا رہا مگر بہت جلد وہ اپنی سابقہ روش پر لوٹ آیا۔
ببلو میاں نے تیلی کے بیل کے ساتھ پھر⬇️
لال کتاب فرماوے یوں
تیلی داند پالے کیوں
پال پوس کے کیتا سو مستانہ
داند دا داند، پجا روپے جرمانہ!⬇️
اب نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔
تاریخ کہتی ہے کہ ایسے فیصلوں کے بعد عام⬇️
میرے محترم حسن صاحب صرف یہاں تک کہانی سناتے تھے۔ مگر میرے خیال میں آگے کی کہانی یعنی اس کا اختتام لکھا یا سنایا جانا ابھی باقی ہے۔۔۔۔۔۔۔!
منقول: امام بخش🔄🇵🇰🔄