1/ آج کل کی نسل "امام ضامن" سے ناواقف ہیں، لیکن کچھ عرصہ قبل تک ہر شیعہ سنی کے ہاں "امام ضامن" کا استعمال معمول تھا۔
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ کترن میں ﮐﭽﮫ ﺭﻗﻢ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻣﺎﻡ ﺿﺎﻣﻦ۔۔۔
👇👇👇
2/ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﻟﮩﺎ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﻮ نظر بد سے ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻬﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺯﻭﺅﮞ ﭘﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺿﺎﻣﻦ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎ رہا ﻫﮯ
اس ﺭﺳﻢ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺿﺎ علیہ السلام۔۔
👇👇👇
"ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ" ﮨﮯ، ﺳﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺿﺎ علیہ السلام ﮐﮯ ﺫﻣﮯ ﮨﮯ.
اسکا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ﺟﺐ امام علی رضا علیہ السلام ﻣﺪﯾﻨﮯ ﺳﮯ۔۔۔
👇👇👇
1/ شہد کی مکھیوں کی زندگی بہت ہی منظم ہوتی ہے۔ ان کے ہاں بڑے سلیقے سے کام تقسیم ہوتا ہے، بہت دقیق نظام کے تحت ذمہ داریاں بانٹی ہوئی ہوتی ہیں۔
شہد کی مکھیوں کا شہر یعنی چھتہ بہت زیادہ پاک و صاف اور متحرک زندگی سے بھرپور ہوتا ہے۔
ان کا شہر، عام شہروں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ یہ
👇👇
2/ روشن اور درخشاں تمدن کا حامل ہوتا ہے ۔ اس شہر میں خلاف ورزی کرنے والے اور کاہل افراد بہت کم نظر آتے ہیں۔
اگر کبھی چھتے کے باہر مکھیاں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدبو دار اور نقصان دہ پھولوں کا رس چوس آئیں تو چھتے کے دروازے پر ہی اس سے باز پرس ہوتی ہے۔ پھر ایک
👇👇
3/ کھلی عدالت لگتی ہے اور اس مقدمے کے ضمن میں اس کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے۔
بلجیم کے ماہر حیاتیات مڑلینگ نے شہد کی مکھیوں کے بارے میں بہت زیادہ مطالعہ اورتحقیق کی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
ملکہ(چھتہ کی ماں) مکھیوں کے شہر کی ایسے حکمران نہیں جیسا ہم تصور کرتے ہیں بلکہ وہ بھی اس شہر
👇👇
1/ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا
"سکینہ (س) میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے"
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہ 20 رجب 56 ھجری میں اس جہانِ فانی میں متولد ہوئیں۔
اصل نام آمنہ یا امیمہ ہے اور لقب "سکینہ"
"سکینہ" کے معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔۔۔
👇👇👇
2/ لیکن یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی
نازونعم سے پلی، باپ کے سینے پر سونے والی اپنی پھوپیوں کی چہیتی
پیاری سکینہ 4 سال ہی میں یتیمہ ہو گئیں 😭
کربلا کا ذکر ہو اور بی بی سکینہ کا ذکر نہ ہو، یہ نہیں ہو سکتا۔ ھمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشور کے دن ڈھلنے تک۔۔۔
👇👇👇
3/ اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو پانی لائیں گے۔۔۔
معصومہ کو کیا خبر تھی کہ اس کے عمو (عباس علمدار علیہ السلام) تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے۔۔۔
عصرِ عاشور سے پہلے جنابِ عباس (ع) کی شہادت کے بعد بی بی سکینہ (س) خاموش ہوگئی اور ۔۔۔
👇👇👇
ایک بار مکمل ضرور پڑھیں
شادی کے اکیس برس کے بعد آخر میری بیوی کے دل میں نیکی لہرائی
کچھ کہنے سے پہلے وہ جھجکی،شرمائی
اپنے دل کی وسعت پر تھوڑا اِترائی
پھر بولی
آج اس عورت کو تم ڈیٹ پہ لےجاؤ
جو تمہاری چاہت میں دیوانی ہے
جس کی بھیگی آنکھوں میں ویرانی ہے
مجھ کو تم سے پیار بہت ہے
👇👇
تم سے دو لمحے کی دُوری
گو کارِدشوار بہت ہے
پر میرا دل نرم بہت ہے
آنکھوں میں بھی شرم بہت ہے
اور اس بات کا علم ہے مجھ کو
وہ عورت بھی تم سے ملنےکی طالب ہے
چاہ تمہاری اس کے دل پر بھی غالب ہے
وہ تنہا ہے،دوری کا دکھ سہتے سہتے اُوب چکی ہے
اکلاپے کے ساگر میں وہ چپکے چپکے ڈوب چکی ہے
👇👇
میری بیوی نے جس عورت سے ملنے کی چھٹی دی تھی
میری ماں تھی
جو پچھلے اُنیس برس سے بیوہ تھی تنہا رہتی تھی
اور میں اپنے بیوی بچوں،کام اور دھندوں
کی ڈوری سے بندھا ہوا تھا
اس سے کم ہی مل پاتا تھا
فون کیا جب میں نے اس کو
رات کے کھانے کی دعوت دی
👇👇
پہلا قانون فطرت:
اگر کھیت میں "دانہ" نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے "گھاس پھوس" سے بھر دیتی ہے....
اسی طرح اگر "دماغ" کو "اچھی فکروں" سے نہ بھرا جاۓ تو "کج فکری" اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے یعنی اس میں صرف "الٹے سیدھے" خیالات آتے ہیں اور وہ۔۔۔
👇👇👇
"شیطان کا گھر" بن جاتا ہے۔
دوسرا قانون فطرت:
جس کے پاس "جو کچھ" ہوتا ہے وہ "وہی کچھ" بانٹتا ہے
* خوش مزاج انسان "خوشیاں "بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان "غم" بانٹتا ہے۔
* عالم "علم" بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان "دین" بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان "خوف" بانٹتا ہے۔
👇👇👇
تیسرا قانون فطرت: آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے "ہضم" کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ
* کھانا ہضم نہ ہونے پر "بیماریاں" پیدا ہوتی ہیں
* مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں "ریاکاری" بڑھتی ہے۔
* بات ہضم نہ ہونے پر "چغلی" اور "غیبت" بڑھتی ہے۔
* تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں۔۔۔
👇👇👇
1/ 25 محرم الحرام
شھادت امام زین العابدین علیہ السلام
آپ ع بتاریخ 15 جمادی الثانی 38 ھجری یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ہوئے.
آپ کا اسم گرامی "علی"، کنیت ابومحمد، ابوالحسن اور ابوالقاسم تھی.
آپ کے القاب بےشمار تھے جن میں زین العابدین، سیدالساجدین، ذوالثفنات، اور سجاد
2/ و عابد زیادہ مشہور ہیں.
امام مالک کا کہنا ہے کہ آپ کو زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہا جاتا ہے.
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو "سجاد" اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ تقریبا ہر کارخیر پر سجدہ فرمایا کرتے تھے. جب آپ خدا کی کسی نعمت کا ذکر کرتے توسجدہ کرتے، جب کلام خدا
3/ کی آیت "سجدہ" پڑھتے تو سجدہ کرتے، جب دو شخصوں میں صلح کراتے توسجدہ کرتے اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے مواضع سجود پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے پڑ جاتے تھے پھر انہیں کٹوانا پڑتا تھا.
ملا مبین تحریر فرماتے ہیں کہ آپ حسن وجمال، صورت وکمال میں نہایت ہی ممتاز تھے. آپ کے چہرہ مبارک
1/ جناب جون بن حویؑ کا تعلق حبشہ سے تھا۔ آپ نے اسلام کی پہلی ہجرت کے بعد نجاشی کے دور میں اسلام قبول کیا اور بعد ازاں آپ رسول اللہؐ کی خدمت میں مدینہ آگئے۔ ان کے بعد امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے پاس رہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت جون کو ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے
2/ سپرد کر دیا اور یہاں سے جون اور ابوذر غفاری رض کی بہترین دوستی کا آغاز ہوا۔
حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ گزرے وقت کی وجہ سے جون کی امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قلبی وابستگی پہلے ہی قائم ہو چکی تھی، ابوذر غفاری کا ساتھ ملنے پر محمدؐ و آل محمد علیہم
3/ السلام سے وابستگی مزید پختہ ہوتی چلی گئی۔
جب امام حسین علیہ السلام بیعت طلبی کے بعد مدینہ چھوڑ رہے تھے اس وقت جون کی عمر 70 ( یا کچھ روایات کے مطابق 95) برس ہو چکی تھی اور کمر میں خم پڑ چکا تھا مگر پھر بھی امام حسین علیہ السلام کے حضور پیش ہوئے اور اُن کا ساتھ دینے کے لیے