ایمان کا لغوی معنی ہے
امن دینا، اعتماد کرنا، کسی کو سچا سمجھ کر اس کی بات پر یقین کرنا، وغیرہ۔ ایمان کا اصطلاحی وشرعی معنی نبی کریم ا سے دین کی جو بات قطعی طور پر ثابت ہے، اُسے دل وجان سے تسلیم کرنا۔ ایمان کی تعریف پر تفصیلی نظر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ 👇
آپ حضور ا کو صادق ومصدوق سمجھیں، آپ ا کی رسالت پر دل سے اعتقاد رکھیں اور زبان سے اس کی گواہی وشہادت دیں۔ایمان کی حقیقت اصل میں ’’تصدیق قلبی‘‘ ہے اور رہا زبان سے اس کا اقرار کرنا تو یہ اقرار صرف اس لئے ہے، تاکہ ظاہر میں اب آپ پر مسلمان ہونے کے احکام جاری کئے جاسکیں اور 👇
یہ بھی ہے کہ زبانی اقرار’’ تصدیق قلبی‘‘ کی علامت بھی ہے، کیونکہ زبان دل کی ترجمان ہے۔ ہاں! یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص گونگا ہے یا جبراً اس سے کلمہ کہلایاگیا ،یا پھر زبان سے اقرار کرنے کی اُسے مہلت نہ مل سکی، لیکن اس کے قلب میں تصدیق موجود تھی تو 👇
ایسی تمام صورتوں میں زبانی اقرار کی ضرورت نہ ہوگی
محدثین کے یہاں ایمان کے تین اجزاء ہیں: ۱…تصدیق، ۲…اقرار ، ۳…عمل۔ اسی لئے تو محدثین ایمان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایمان تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کا نام ہے۔ اور ہمارا خیال تو یہ ہے کہ یہ اختلاف محض لفظی ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں، کیونکہ 👇
جو کچھ محدثین کہتے ہیں کامل ایمان تو حقیقتاً یہی ہے۔ بے عمل کا ایمان بہرحال ناقص ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ ایمان، تصدیق قلبی کا ہی نام ہے، اعمال اس کی حقیقت میں داخل نہیں، اگرچہ کمال ایمان، اعمال صالحہ ہی سے وجود میں آتا ہے۔ 👇
(شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ، ایمان کیا ہے؟ مترجم مولانا محمد انظر شاہ کشمیریؒ، ص:۸۳)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آبائی گاؤں سے منتقل ہونے کے بعد وہاں جانے کی صورت میں نماز کے قصر اور اتمام کا حکم
سوال
میرے ایک جاننے والے ہیں ان کا ایک گھر پنجاب میں ہے اور ایک گھر کراچی میں ہے جب کہ ان کی رہائش کراچی والے گھر میں ہے اور گھر والے بھی یہیں کراچی والے گھر میں ہیں، اور 👇
وہ پنجاب میں کبھی کبھار جاتے ہیں کسی کام وغیرہ کے سلسلے میں، تو کیا وہ پنجاب میں نماز مکمل پڑھیں گے یا قصر کریں گے ؟
جواب
اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل طور پر اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، 👇
اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو اس کا پہلا وطن اصلی ختم ہوجاتا ہے، اور دوسری جگہ اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، اور اگر پہلی جگہ پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا وطنِ اصلی سے اہل وعیال کو تو دوسری جگہ منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے 👇
شرعی سفر میں مسافر کے لیے چار رکعت والی فرض نماز (ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز) دو رکعت پڑھنا واجب ہے، اس کو قصر نماز کہتے ہیں۔
شرعی سفر سے مراد یہ ہے کہ سوا ستتر کلومیڑ یا اس سے زیادہ مسافت کی نیت سے سفر کا ارادہ ہو تو 👇
شہر کی حدود سے باہر نکلنے کے بعد مسافر پر سفر کے احکامات لاگو ہوجائیں گے، پھر جس آبادی میں جانا ہو وہاں اگر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو تو وہاں بھی نماز قصر کرنی ہوگی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200741
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
میں لاہور میں ملازمت کرتا ہوں اور میرا گھر ڈسٹرکٹ قصور میں واقع ہے، میں روزانہ 60 کلومیٹر کا سفر کر کے ڈیوٹی پر پہنچتا ہوں اور وہاں اپنی آٹھ گھنٹے ڈیوٹی پوری کر کے واپس پھر 60 کلومیٹر کا سفر طے کر کے گھر پہنچتا ہوں، جس کے نتیجے میں میری ظہر کی نماز آفس میں اور 👇
عصر اور مغرب کی نماز سفر میں آ جاتی ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے یہ تین نمازیں قصر پڑھنی چاہییں یا مکمل؟
جواب
شرعی سفر کے تحقق کے لیے ضروری ہے کہ اپنے شہر یا قصبے سے باہر ایسی جگہ سفر کا ارادہ ہو کہ ایک جانب کم از کم سوا ستتر کلو میٹر کا سفر ہو، 👇
اس سے کم پر شرعی سفر کااطلاق نہیں ہوتا، لہذا سائل جب روزانہ ساٹھ کلو میٹر دور ملازمت کے لیے جاتاہے تو وہ شرعًا مسافر نہیں ہے، اس دوران جتنی بھی نمازیں اداکرے گا وہ مکمل ہی ادا کرے گا، ان میں قصر نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ بالکل اسی طرح انسان کے ”نیک“ کو ”بد“ سے ممتاز کرنے کے لیے بھی ”تپش“ کی ضرورت ہے، یہ ”تپش“ جو انسان کو کھوٹ سے نجات عطا کرتی ہے ، دو طرح کی ہے، ایک عذاب جہنم کی تپش، کیوں کہ مومن کے لیے جہنم کی آگ بھی درحقیقت کھوٹ ہی کو الگ کرنے کے لیے 👇
ہو گئی، محض جلانا مقصد نہیں ہو گا، بلکہ پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرنا مقصود ہو گا، بخلاف کافروں کے کہ انہیں دائمی طور پر جلنے ہی کے لیے جہنم میں ڈالا جائے گا۔اسی لیے قرآن کریم نے فرمایا: ﴿وھل نجٰزی الا الکفور﴾ (سورة السباء:17)
دوسری قسم کی ”تپش“ حسرت وندامت کی تپش ہے، 👇
یہ ایسی آگ ہے جو اس دنیا میں کھوٹ کو پگھلاسکتی ہے۔امام غزالی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ انسان کو کھوٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان دو قسموں میں سے کسی ایک قسم کی آگ میں جلنا ضروری ہے، اب اگر وہ چاہے تو جہنم کی آگ کو اختیار کرلے اور اگر یہ بات اسے مشکل معلوم ہوتی ہے، 👇
دینِ اسلام کی اسی عظمت اور فوقیت کے پیش نظر اسلامی احکام اور اقدار کے حوالے سے خصوصی احکام اور ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ان احکام کا دائرہ ذاتی، سماجی، قومی او ر بین الاقوامی زندگی تک وسیع ہے۔👇
مسلمان کی بین الاقوامی زندگی کا پہلا مدون لائحہ عمل امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی’’ کتاب السیر ‘‘ہے، جس کے مطالعے کے بعد اہلِ کتاب کے ایک عالم کے مسلمان ہونے اور کتاب سے متعلق یہ تاثرات زبان زد عام ہیں کہ: ’’ہٰذا کتاب محمدکم الأصغر فکیف کتاب محمدکم الأکبر‘‘ 👇
(یہ تمہارے چھوٹے محمد کی کتاب ہے، تمہارے بڑے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کتاب (قرآن کریم) کیسی ہوگی؟!)3
اس کتاب میں مسلم قوم کے دیگر اقوام کے ساتھ تعامل، رویے اوررہن سہن کے تقریباً تمام احکام کلیات یا جزئیات کی صورت میں موجود ہیں۔ ان احکام میں سے ایک بے مثال اور روشن حکم یہ 👇
الحاد،سائنس اور خالق: Science, Atheism & Creator
دہریت درحقیقت کسی مضطرب ذہن کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے ۔ جدید دور کے بڑے سائنسدان بھی الحاد کی قطار میں فکری شش و پنج کی وجہ سے ہیں۔ خدا سے انکار کسی بھی شخص کا ذاتی نظریہ ہی ہوتا ہے👇
مگرجب کوئی عالم یا ماہر طبعیات اپنی علمی حیثیت میں اس کا اظہار کرتا ہے تو ایک تاثّر یہ بنتا ہے کہ اس کا علم بھی اس کی تائید کرتا ہوگا۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ سائنس کا دائرہ کار میٹا فزکس نہیں ہے لیکن پھر بھی جدید اسکالر خدا کو بھی طبعی پیرایوں میں تلاش کرتے ہیں۔
جدید دور میں اکثرسائنسدان خدا کے وجود کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ سائنس خدا کی منکر ہے، اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لادین طبقہ سائنسی نظریات کا سہارا لے کر لادینیت اور دہریت کی ترویج کرتا ہے اور یہ 👇