ایک زمانہ تھا کہ بخشش ہوٹل کے بیروں اور چپڑاسیوں کے لئے مخصوص تھی۔نواز شریف سیاست میں آیا تو بخشش کا معیار بہت بلند ہو گیا, ججز کے بعد صحافیوں کو بخششوں سے نوازا جانے لگا, صحافیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ عرفان صدیقی کو وفاداری پر مشیر کی سیٹ بخشش (جاری)
میں ملی, عطاالحق قاسمی کو قصیدے لکھنے پر سفارت کی بخشش ملی۔ بعد ازاں چیئرمین پی ٹی وی کی بخشش ملی, میرشکیل الرحمان کو ایل ڈی اے کے پلاٹس بخشش میں ملے, جبکہ چالیس سالہ سیاست میں اربوں روپے کے اشتہارات اور اربوں کی ٹیکس چھوٹ الگ سے بخشش میں ملی, مشتاق منہاس کو آزاد کشمیر (جاری)
میں وزارت اطلاعات بخشش میں ملی, محمد مالک کو پی ٹی وی چیئرمینی بخشش میں ملی, لاہور میں لبرٹی کے سامنے پٹرول پمپ 15ہزار سالانہ لیز پر مجیب الرحمن شامی کو بخشش میں ملا۔ عدالت نے 22 پٹرول پمپس کی لیز منسوخ کر کے نیلامی کا حکم دیا۔نیلامی میں صرف لبرٹی کا پٹرول پمپ (جاری)
چوبیس لاکھ روپے ماہانہ پر لیز ہوا۔باقی کے بھی سارے پٹرول پمپ میڈیا مالکان کے فرنٹ مینوں کے نام تھے۔ طلعت حسین کو اسلام آباد کا کرکٹ گراؤنڈ بخشش میں ملا, بہت سے میڈیا مالکان اور صحافیوں کو سرکاری گارڈز اور گاڑیاں بطور پروٹوکول بخشش میں ملیں, بیچارہ میڈیا زیادہ تنگ دست ہوا (جاری)
تو نجم سیٹھی کو عبوری وزارت اعلی اور بعد ازاں کرکٹ بورڈ کی چئیرمینی بخشش میں ملی۔ سلیم صافی, جاوید چوہدری, حامد میر, عارف نظامی, حبیب اکرم, امتیاز عالم, عاصمہ شیرازی وغیرہ وغیرہ کی بخشش پلاٹوں, قیمتی تحفوں, بیرونی دوروں, حج و عمرے اور عزیز و اقارب کے لئے چمکدار نوکریوں کی (جاری)
شکل میں فہرست بہت طویل ہے, ملک ریاض بھی بخشش کے معاملے میں بہت فراخ دل تھا۔خاص طور پر پلاٹ اور چیکوں کی فہرست تو پہلے بھی سامنے آچکی ہے, نواز شریف کو ایل ڈی اے سے جوہر ٹاون میں پانچ سو پلاٹ بیوہ کوٹے کے لئے دئے گئے۔ بعد ازاں پتہ لگا کہ منظوری پانچ سو پلاٹوں کی تھی, (جاری)
2200 پلاٹ الاٹ ہو گئے۔ ہر صحافی کے خاندان کی بیوہ اور کشمیری برداری کی ہر بیوہ پلاٹ کی نعمت سے مالا مال ہو گئیں۔یہ پانچ مرلے کا پلاٹ ایک کروڑ روپے کا ہے.
(جاری)
ضروری نوٹ۔
نواز شریف نے یہ ساری بخشش اپنی جیب سے نہیں بلکہ سرکاری خزانے سے دی, بیت المال سے ہر سال کروڑوں روپے نکلوا کر عید بقرعید پر غریب صحافیوں اور گریڈ سترہ سے اوپر مستحق سرکاری افسران کو عیدی کی شکل میں دی جاتی تھی۔ بیت المال میں یہ رقم زکواۃ کٹوتی سے حاصل ہوتی تھی
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
لاہور ہائیکورٹ کا جج جسٹس ملک قیوم, بھٹو کو سزائے موت سنانے والے جسٹس اکرم کا بیٹا, شریفوں کا ذاتی خادم تھا, صلے کے طور پر اسکے
بھائی پرویزملک, بھابھی شائستہ ملک اور بھتیجے علی پرویز ملک کو قومی اسمبلی کی نشستیں باقاعدگی سے ملتی ہیں, یہ ہوتا ہے بادشاہ سلامت سے وفاداری کا صلہ
جسٹس ملک قیوم سپریم کورٹ کا وکیل تھا, شریفوں نے ہائیکورٹ کا جج لگوایا, ساتھ ہی پنجاب لوکل الیکشن کمیشن کا ممبر بھی نامزد کیا, اسکے علاوہ مزید عہدوں سے بھی نوازا, 2001 میں سپریم کورٹ نے جسٹس راشد عزیز اور ملک قیوم سے شریفوں کے وفادار ہونے کی وجہ سے استعفیٰ لے لیا
ایک زمانہ تھا کہ بخشش ہوٹل کے بیروں اور چپڑاسیوں کے لئے مخصوص تھی۔نواز شریف سیاست میں آیا تو بخشش کا معیار بہت بلند ہو گیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس ر رفیق تارڑ جو جسٹس سجاد علی شاہ کو نکلوانے کے ماسٹر مائنڈ تھے انہیں اس خدمت کے عوض صدارت بخشش میں ملی,جسٹس سعید الزماں صدیقی کی
(جاری)
رؤف کلاسرہ کا پروگرام بند کیوں ہوا
*تھریڈ*
انڈس گروپ نے آفتاب اقبال کے ساتھ مل کرنیوز چینل لانچ کرنےکافیصلہ کیا, آفتاب اقبال کی گڈوِل کو استعمال کرنےکیلیے اسے 30 فیصد شیئرزکامالک بنایاگیا,چینل لانچنگ کا فیصلہ ہو گیا تو سامان کی خریداری کافیصلہ ہوا,آفتاب اقبال کا بھائی ایم ڈی
بنایاگیا, اس نے چینل کیلیےسامان خریدنے کی بجائے کرائے پرلینے کافیصلہ کیا, پی سی آر کاسامان, گاڑیاں,کیمرے وغیرہ کرائے پرحاصل کرلیےگئے, ساتھ ہی ایم ڈی نے اپنے رشتہ دار اورجاننے والے اہم پوسٹوں پرلگادیے اورانکی تنخواہیں لاکھوں میں, مثال کے طور پرٹرانسپورٹ ہیڈ اس کا رشتہ دارتھا ڈیڑہ
لاکھ سیلری لگائی, کچھ فریش لوگ لاکھ روپے سے زائدپر بھرتی کرلیےگئے, ٹیسٹ ٹرانسمیشن سے اب تک تقریباً ایک سال میں کمپنی نے 2 ارب کانقصان کیاتو مالک کے کان کھڑےہوئے, تحقیقات کیں توانکھیں کھل گئیں, معلوم ہوا کہ آفتاب اقبال کےبھائی نے جو سامان چینل کیلیے جس کمپنی سےکرائے پرلیا, وہ