ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچّوں نے کہا ڈاکٹر ، انجنیئر ، آرمی
آفیسر ، پائلٹ ، وغیرہ وغیرہ۔
وہ کچھ خاموش ہو گئے.
پھر لنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے۔ میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ھے
اور یہ بہت خطرناک ھے...
ایوب خان صرف مسکرا دیے۔ کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ھے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ھے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت
علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔
اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا:۔ ’’میں
صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔
یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:۔
ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس
لیے دیا جا رہا ھے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ھے…؟‘‘
یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا
کہ:۔
’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ھے‘‘
یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن ؒ کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد
علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:۔
’’میرے استاد مولوی میر حسن ؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘
اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسنؒ کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتے۔لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔
الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شے سے بُلند ہے۔
جہاں کوئی اُستاد نہ بننا چاھے، وہاں بظاہر پڑھے لکھے لیکن حقیقتاً جاہل راج کرتے ھیں.
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں پھوٹی کوڑی کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً
میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔
دنیا کا پُرانا ترین سکہ یہی پھوٹی کوڑی ہے۔ یہ پھوٹی کوڑی کوڑی یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں
کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ پھوٹی کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا پھوٹی کوڑی کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا
لاہور کے شاہ عالم چوک میں ایک ایسی مسجد واقع ہے جسے ایک رات میں تعمیر کیا گیا تھا- اس مسجد کی اتنے قلیل وقت میں تعمیر کی وجہ اور واقعہ بھی انتہائی دلچسپ اور ایمان افروز ہے-
تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں کے دور میں اس مقام سے ایک مسافر کا گزر ہوا اور اس
نے یہاں نماز ادا کی جبکہ یہ علاقہ اس وقت ہندوؤں کی اکثریت کا حامل تھا- ہندوؤں کو یہ برداشت نہ ہوا اور اور انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی-معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور وہاں ہندوؤں کا مؤقف تھا کہ اس جگہ پر مندر تعمیر ہوگا جبکہ
مسلمان یہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے- اس موقع پر مسلمانوں کے وکیل نے انہیں تجویز دی کہ اگر وہ یہاں صبح فجر سے پہلے مسجد تعمیر کرلیتے ہیں تو کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہو جائے گا- مسلمانوں کی جانب سے اس کیس کی
جب میں پہلی بار تیزگام میں سوار ہوا
اور پہلے سے موجود مسافروں سے پوچھا دینہ کب آئے گا مجھے اترنا ہے
تو مسافروں نے بتایا بھائی یہ تیزگام گاڑی ہے دینہ میں نہیں رکتی
دینہ سے گزرے گی مگر رکے گی نہیں
یہ سن کر میں گھبرا گیا
مسافروں نے کہا گھبراؤ نہیں
دینہ اسٹیشن میں روز یہ ٹرین سلو ہو جاتی ہے
تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین سلو ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اترنا اور آگے کی
طرف بنا رکے دوڑتے ہوئے کچھ دور جاناجس طرف ٹرین جا رہی ہے
اس طرف ہی دوڑنا تو تم گروگے نہیں
دینہ آنے سے پہلے ہی مسافروں نے مجھے گیٹ پر کھڑا کر دیا
ایک دن اسلامی لشکر کا امیر اپنی عادت کے مطابق نماز پڑھا کر اپنے خیمے کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھی عورت نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس کادامن پکڑ لیا اور کہا: ”یا امیر یا امیر امیری فریاد سنتے جانا میری بات کو غور سے سننا ۔
امیر نےایک نظر بوڑھی عورت کی طرف دیکھا اور وہیں رک گیا۔ امیر کے محافظوں نے بوڑھی عورت کو
امیر کی طرف بڑھنے سے روکنے کی کوشش مگر امیر نے سپاہیوں کو روک دیا اور کہا: ”اس
بوڑھی عورت کو نہ روکو۔ میں اس کی فریادضرور سنوں گا۔“ پھر امیر بوڑھی
عورت کی طرف بڑھا
اور کہا: ”اماں جان! آپ اپنا مسئلہ بتائیں ۔“ بوڑھی عورت نے کہا: آپ مجھے یہ بتائیں کہ
میرا بیٹا کہاں ہے؟ امیر نے چہرے پر پریشانی کے تاثرات لاتے ہوئے کہا: آپ کا بیٹا؟
بوڑھی عورت نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
چھوٹی سی کوشش کسی دوسرے کو خوشیاں اور آپ کو دلی سکون دے سکتی ہے
تنخواہ لے کر گھر پہنچتے ہی فوڈ پانڈا والوں کو فون کرکے انہیں ایک چکن بروسٹ، ایک منرل واٹر اور ایک سافٹ ڈرنک کا آرڈر بُک کرایا اور ڈیلیوری کا انتظار کرنے لگا
کُچھ دیر بعد ہی کوئی 21/22 سال کا ایک پیارا سا نوجوان رائیڈر میرے دروازے پر پارسل کے ساتھ موجود تھا
رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے پُوچھا بیٹا کہاں تک پڑھے ہو؟
اُس نے بتایا کہ وہ بی اے پاس ھے، میرے
مزید کُریدنے پر بولا کہ اُس کے والد فوت ہوچکے ہیں، خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُسی کے کاندھوں پر آن پڑی ھے، پانچ بہن بھائی ہیں جو چھوٹے ہیں اس لیے مُجھے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی، اب رائیڈنگ کے ذریعے اپنی والدہ اور چھوٹے
ایک بیس بائیس سالہ نوجوان ہائپر سٹار میں داخل ہوا اور کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ ایک خاتون اس کا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہوگیا۔
لیکن وہ عورت مستقل اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا۔
وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا: خیریت ہے؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی۔
عورت نے یہ کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں امی جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے