ایک دن اسلامی لشکر کا امیر اپنی عادت کے مطابق نماز پڑھا کر اپنے خیمے کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں ایک بوڑھی عورت نے آگے بڑھتے ہوئے اپنے کانپتے ہاتھوں سے اس کادامن پکڑ لیا اور کہا: ”یا امیر یا امیر امیری فریاد سنتے جانا میری بات کو غور سے سننا ۔
امیر نےایک نظر بوڑھی عورت کی طرف دیکھا اور وہیں رک گیا۔ امیر کے محافظوں نے بوڑھی عورت کو
امیر کی طرف بڑھنے سے روکنے کی کوشش مگر امیر نے سپاہیوں کو روک دیا اور کہا: ”اس
بوڑھی عورت کو نہ روکو۔ میں اس کی فریادضرور سنوں گا۔“ پھر امیر بوڑھی
عورت کی طرف بڑھا
اور کہا: ”اماں جان! آپ اپنا مسئلہ بتائیں ۔“ بوڑھی عورت نے کہا: آپ مجھے یہ بتائیں کہ
میرا بیٹا کہاں ہے؟ امیر نے چہرے پر پریشانی کے تاثرات لاتے ہوئے کہا: آپ کا بیٹا؟
بوڑھی عورت نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
اور کہا: مجھے پتہ تھا کہ آپ بھی دوسروں کی
طرح مجھے پاگل کہیں گے۔ مگر جب تک میرے بیٹے کا علم نہ ہو جائے۔ میں آپ کا دامن نہیں
چھوڑوں گی۔ مجھے میرے بیٹے کا بتائیں کہ وہ کہاں ہے؟
بوڑھی عورت اپنے گمشدہ بیٹے کو تلاش
کرنے کی فریاد کرتے ہوئے بولی آپ کو سب
پتہ ہوگا۔ آپ چاہیں تو میرے بیٹے کو فورا ڈھونڈ سکتے ہیں ۔‘ امیر نے پریشانی سے اپنےمحافظوں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا: ”یا میرا یہ بوڑھی عورت نیم پاگل ہے۔ آج سے دو
سال پہلے اس کا اکلوتا بیٹا قید خانے میں
فوت ہو گیا تھا مگر اس عورت کو ابھی تک اپنے بیٹے کی
موت کا یقین نہیں آرہا۔ یہ سمجھتی ہے کہ ابھی تک اس کا بیٹا قید خانے میں ہے۔ امیر نے
پوچھا:”اس نے کیا جرم کیا تھا جو قید خانے میں بند کر رکھا تھا؟‘‘ پانی نے کہا: ”یا امیر یہاں
صرف مجرموں کو ہی سزا نہیں ملتی بلکہ بے قصور بھی سزا پاتے ہیں ۔ اس بوڑھی عورت کا بیٹا ان
میں سے ایک تھا جو حق کی آواز بلند کرنے کے جرم میں قید کر لیے گئے۔
بوڑھی عورت نے امیر کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور اب وہ روتے ہوئے
ہچکیاں بھی لے رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور دل پریشان تھا۔ امیر نے
سپاہی کی بات سنی اور بوڑھی عورت کی ہچکیاں سنیں تو اس سے انکا دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو بہہ
نکلے۔ امیر نے بوڑھی عورت سے کہا: ”اماں جان! آپ فکر نہ کریں۔
اب میں آپ کا بیٹا
ہوں ۔ یہ کہ کر اس نے سپاہی کو دیکھا اور کہا
: ان کو نہایت عزت سے شہر کے ناظم کے پاس
لے جاؤ تا کہ وہ ان کے رہنے کے لیے مناسب بندوبست کر دیں اور میری طرف سے ان کو
مناسب وظیفہ بھی ملتا رہے گا۔“ یہ کہ کر
امیر نے بوڑھی عورت کی طرف دیکھا۔ جس کی
آنکھوں میں شفقت اور محبت کے تاثرات نظر آرہے تھے۔ امیر نے اپنے خیمے کی طرف قدم
بڑھادیئے اور سب لوگ امیر کے الفاظ کی گونج محسوس کررہے تھے۔
اس رحم دل اور انصاف پسند امیر کا نام
یوسف_بن_تاشفین تھا۔
آپ 462ھ میں ابو بکر بن عمر کے انتقال کے بعد مراکشی علماء کی تحریک پر بَربَر قوم نے یوسف بن تاشفین کو اپنا امیر چن لیاتھا۔ اس فیصلے کو ماننے والوں میں سابق امیر ابوبکر بن عمر کے بیٹے سمیر بن ابوبکر بھی شامل تھا۔
ابوبکر بن عمر آپ کے سگے چچا تھے۔ یوسف بن تاشفین نے امیر بن کر #مرابطین سلطنت کو ایک عظیم الشان اسلامی مملکت بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ جس وجہ سے افریقہ کے اکثر علاقے الله اکبر کی صداؤں سے گونجنے لگے۔
ایسے ہوتے ہیں حکمران جو اپنی رعایا کی ہر لحاظ فکر میں لگے رہتے ہیں
دوستو ہمارا تعلق ایک تابناک اور پُر وقار ماضی رکھنے والی قوم سے ہے ہماری نوجوان نسل کو ایک سازش کے تحت اپنے آباؤاجداد کی کی تاریخی کامیابیوں سے دور رکھا جاتا ہے اور امریکہ و یورپ کی
پستگی میں ڈوبی تہذیب کی فرسودہ مثالیں دے دے کر احساس کمتری میں مبتلا کیا جارہا ہے اور اس مزموم سازش کی تکمیل کے لئے پاکستان میں بے ضمیر مال و دولت کے لالچی اور یہود و نصاری کے ساتھی
میر جعفر و صادق جیسے سیاستدانوں کا لنڈا بازار لگا ہوا ہے.
ﷲ ہمیں اور ہماری نوجوان نسل کو ہر طرح کے شر سے محفوظ رکھے...
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
جب میں پہلی بار تیزگام میں سوار ہوا
اور پہلے سے موجود مسافروں سے پوچھا دینہ کب آئے گا مجھے اترنا ہے
تو مسافروں نے بتایا بھائی یہ تیزگام گاڑی ہے دینہ میں نہیں رکتی
دینہ سے گزرے گی مگر رکے گی نہیں
یہ سن کر میں گھبرا گیا
مسافروں نے کہا گھبراؤ نہیں
دینہ اسٹیشن میں روز یہ ٹرین سلو ہو جاتی ہے
تم ایک کام کرنا جیسے ہی ٹرین سلو ہو تو تم دوڑتے ہوئے ٹرین سے اترنا اور آگے کی
طرف بنا رکے دوڑتے ہوئے کچھ دور جاناجس طرف ٹرین جا رہی ہے
اس طرف ہی دوڑنا تو تم گروگے نہیں
دینہ آنے سے پہلے ہی مسافروں نے مجھے گیٹ پر کھڑا کر دیا
چھوٹی سی کوشش کسی دوسرے کو خوشیاں اور آپ کو دلی سکون دے سکتی ہے
تنخواہ لے کر گھر پہنچتے ہی فوڈ پانڈا والوں کو فون کرکے انہیں ایک چکن بروسٹ، ایک منرل واٹر اور ایک سافٹ ڈرنک کا آرڈر بُک کرایا اور ڈیلیوری کا انتظار کرنے لگا
کُچھ دیر بعد ہی کوئی 21/22 سال کا ایک پیارا سا نوجوان رائیڈر میرے دروازے پر پارسل کے ساتھ موجود تھا
رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے پُوچھا بیٹا کہاں تک پڑھے ہو؟
اُس نے بتایا کہ وہ بی اے پاس ھے، میرے
مزید کُریدنے پر بولا کہ اُس کے والد فوت ہوچکے ہیں، خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُسی کے کاندھوں پر آن پڑی ھے، پانچ بہن بھائی ہیں جو چھوٹے ہیں اس لیے مُجھے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی، اب رائیڈنگ کے ذریعے اپنی والدہ اور چھوٹے
ایک بیس بائیس سالہ نوجوان ہائپر سٹار میں داخل ہوا اور کچھ خریداری کر ہی رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ ایک خاتون اس کا تعاقب کر رہی ہے، مگر اس نے اسے اپنا شک سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا اور خریداری میں مصروف ہوگیا۔
لیکن وہ عورت مستقل اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اب کی بار اس نوجوان سے رہا نہ گیا۔
وہ یک لخت خاتون کی طرف مڑا اور پوچھا: خیریت ہے؟
عورت: بیٹا آپ کی شکل میرے مرحوم بیٹے سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کے پیچھے چل پڑی۔
عورت نے یہ کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
نوجوان: کوئی بات نہیں امی جی آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔
عورت: بیٹا کیا ایک دفعہ پھر آپ مجھے
امام شافعیؒ کے زمانے میں ایک خلیفہ نے اپنی بیوی کو عجیب طریقے سے طلاق دے دی، اور یہ طلاق بعد ازاں فقہ کا بہت بڑا مسئلہ بن گئی۔
بادشاہ اپنی ملکہ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ
ہنسی مذاق میں اُس نے ملکہ سے پوچھ لیا کہ، "تمہیں میری شکل کیسی لگتی ہے
ملکہ جو بادشاہ کی عزیز ترین بیگم تھیں، وہ مذاق کے موڈ میں بولی، "مجھے آپ شکل سے جہنمی لگتے ہیں"۔
یہ فقرہ سننے کے بعد بادشاہ کو غصہ آ گیا اور بولا، "میں اگر جہنمی ہوں تو تمہیں تین
طلاقیں دیتا ہوں۔۔۔
" ملکہ نے یہ سنا تو اُس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ بادشاہ کو بھی کچھ دیر بعد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے دِن بادشاہ سلامت نے ملک کے تمام علماء، مفتی صاحبان اور اماموں کو دربار میں بلا لیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ، "کیا اِس طریقے سے
نِکاح ہوجانے سے , دستخط کردینے سے , بِستر پر سوجانے سے , مرد ہونے کا اعزاز مل جانے سے کوئی مرد نہیں بن جاتا , بلکہ مرد کے معنی ہیں (م) مضبُوط , (ر) روزی کمانے والا , (د) دِلیر , یعنی جو عورت کے اِردگِرد اُسکی مضبُوظ ڈھال بنے , اُسے حلال کی
روزی روٹی دے , اُس کے ہر دُکھ سُکھ میں شریک ہوکر اپنی دِلیری کا مظاہرہ کرے , صِرف وہی مرد اصلی مرد کہلانے کا حقدار ہے - ایک کڑوا سچ, 👇👇👇
کچھ دن پہلے دوست کے ساتھ لاہور کے سروس ہسپتال کا چکر لگا کچھ کام کے
حوالے سے , وہاں میں نے ایک شادی شُدا جوڑا دیکھا جو کہ لگ بھگ مجھے نیا نیا جوڑا لگ رہا تھا , کچھ دیر گزرنے کے بعد میں نے اس لڑکی کے شوہر کے منہ سے ایسے الفاظ سنے کہ بس , اس کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے " بچہ پیدا کر کے تم
جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز
نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا.لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نہ کرتا.
ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ
کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا.حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا. مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو