!!!بچـــــــہ_اور_کــچـھــــــــوا!!!
کہتے ہیں ایک بچے نے کچھوا پال رکھا تھا، اُسے سارا دن کھلاتا پلاتا اور اُسکے ساتھ کھیلتا تھا۔
سردیوں کی ایک یخ بستہ شام کو بچے نے اپنے کچھوے سے کھیلنا چاہا مگر کچھوا سردی سے بچنے اور اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے اپنے خول میں چُھپا ہوا تھا۔
بچے نے کچھوے کو خول سے باہر آنے پر آمادہ کرنے کی بُہت کوشش کی مگر بے سود۔ جھلاہٹ میں اُس نے ڈنڈا اُٹھا کر کچھوے کی پٹائی بھی کر ڈالی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
بچے نے چیخ چیخ کر کچھوے کو باہر نکلنے پر راضی کرنا چاہامگر کچھوا سہم کر اپنے خول میں اور زیادہ دُبکا رہا.
بچے کا باپ کمرے
میں داخل ہوا تو بچہ غصے سے تلملا رہا تھا۔
باپ نے بچے سے پوچھا؛
بیٹے کیا بات ہے؟
بچے نے اپنا اور کچھوے کا سارا قصہ باپ کو کہہ سُنایا، باپ نے مُسکراتے ہوتے بچے کا ہاتھ تھاما اور بولا اِسے چھوڑو اور میرے ساتھ آؤ۔ بچے کا ہاتھ پکڑے باپ اُسے آتشدان کی طرف لے گیا، آگ جلائی اور
حرارت کے پاس ہی بیٹھ کر بچے سے باتیں کرنے لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر گُزری تھی کہ کچھوا بھی حرارت لینے کیلئے آہستہ آہستہ اُن کے پاس آ گیا۔ باپ نے مُسکرا کر بچے کی طرف دیکھا جو کچھوے کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا..
باپ نے بچےکو مُخاطب کرتےہوئےکہا:
بیٹے انسان بھی کچھوے کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ وہ اپنے خول اُتار کر تمہارے ساتھ کھلے دِل سے ملیں تو اُنہیں اپنی مُحبت کی حرارت پہنچایا کرو، نہ کہ اُنہیں ڈنڈے کے زور پر یا اپنا حُکم چلا کر۔
●پُر کشش اور جادوئی شخصیت والے لوگوں کے پوشیدہ رازوں
میں سے ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ..
زندگی میں لوگوں کو اپنی مُحبت کی حِدت اور اپنے جذبات کی گرمی پہنچا کر اُنہیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں، اُن کی تعریف و تحسین اور قدر سے اُن کے دِلوں میں اپنے لئے پیار اور چاہت کے جذبات پیدا کرتے ہیں اور پھر اِنہی جذبات کے بل بوتے پر اُن پر اور
اُنکے دِلوں پر حکومت کرتے ہیں۔
اور انسانی مخلوق تو ہے ہی ایسی کہ کوئی بھی اُسکے دِل میں گھر نہیں کرسکتاسوائے اِس کے کہ اُس کے ساتھ جذبات کی گرم جوشی، سچے دِل اور روح کی پاکیزگی کےساتھ مِلاجائے
"کاپی"منقول"
مختصرمعلوماتی اسلامی اورتاریخی اردوتحریریں پڑھنےکیلئےاکاؤنٹ فالولازمی کریں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
*" ان پڑھہ سرجن "*
" کیپ ٹائون " کا ان پڑھہ سرجن مسٹر " ھیملٹن " جس کو ماسٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری دی گئی ____ جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا _____ یہ کیسے ممکن ھے آئیے دیکھتے ھیں ______
کیپ ٹاﺅن کی میڈیکل یونیورسٹی کو طبی دنیا میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اسی یونیورسٹی میں ہوا تھا‘
اس یونیورسٹی نے چند سال پہلے ایک ایسے سیاہ فام شخص کو
”ماسٹر آف میڈیسن“
کی اعزازی ڈگری سے نوازا جس نے زندگی میں کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔
جو انگریزی کا ایک لفظ پڑھ سکتا تھا
اور
نہ ہی لکھ سکتا تھا..
لیکن 2003ء کی ایک صبح دنیا کے مشہور سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اعلان کیا:،
"ہم آج ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دے رہے ہیں جس نے دنیا میں سب سے زیادہ سرجن پیدا کیے،
جو ایک غیر معمولی استاد، اور
ایک حیران کن سرجن ہے، اور
جس نے میڈیکل سائنس
اور
*خوشی کے بوسے کی تلاش*
ہم میں سے ہر ایک ہر قیمت پر خوش رہنا چاہتا ہے. ہم جیسی بھی آزمائشوں سے گزریں اور کسی بھی طرح کے امتحانوں سے پالا پڑے، ہمارا خواب ہوتا ہے کہ ہم اپنے ارادوں کو پورا کرنے میں کامران رہیں. اب ایک ملین ڈالرز کا سوال یہ آن پڑتا ہے کہ خوش رہنے کا نسخہ کیا ہے
؟ یہ گدڑ سنگھی کہاں سے ملتی ہے؟
ایک مشہور موٹیویشنل سپیکر نے مسرت کی تلاش پر ایک سیمینار منعقدہ کرایا. وہ کئی کتابوں کا مصنف تھا اور اس کے گیانی پن کی دھوم ہر طرف مچ چکی تھی، چنانچہ اس کے سیمینار میں شریک ہونے کے لیے سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے. شرکاء میں ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ،
تجارتکار، صنعت کار، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے. سب خوشی کے جادوئی فارمولے کی تلاش میں تھے.
سیمینار شروع ہوا اور مقرر نے خوشی کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت شروع کردی. اس کے پاٹ دار اور پراعتماد لہجے نے حاضرین کو اپنی گرفت میں لے لیا. پھر وہ بولتے بولتے ایک
!!!خامیوں_کی_بجاۓ_خوبیوں_کو_تلاش_کریں!!!
ایک میاں بیوی ایک کاؤنسلر کے پاس گئے ۔
ان کا آپس میں شدید جھگڑا چل رہا تھا۔ وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی روا دار نہیں تھے۔ انہوں نے سوچا کہ لوگوں کے مشورے پر عمل درآمد کیا جائے اور تھوڑی سی تھیراپی کروا لی جائے۔ جب وہ دونوں آفس میں
داخل ہوئے تو کاؤنسلر نے دونوں کے چہرے پر سخت کشیدگی دیکھی۔ اس نے ان دونوں کو بیٹھنے کے لیے بولا۔ جب وہ بیٹھ گئے تو اس نے بولا کہ اب آپ بتائیں کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ تو وہ دونوں یکدم بولنا شروع ہو گئے اور ایک سانس میں ایک دوسرے پر تنقید کے پہاڑ ڈال دیے۔ دونوں اپنے موقف سے پیچھے
ہٹنے کو تیار نہ تھے
۔کاؤنسلر نے ان دونوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے دی اور چپ کر کے ان کی لڑائی ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ جب دونوں بول بول کر تنگ آگئے تو کاؤنسلر نے انہیں بولا کہ اچھا یہ تو لڑائی اور خامیوں والی کہانی ہو گئی اب ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرو۔ تم دونوں کو ایک
بڑھاپے_میں_والدین_کو_آپکی_ضرورت_ہوتی_ھے
پراپرٹی ڈیلر نے اشتہار پڑھا
"مکان براۓ فروخت"
اس نے مکان کا وزٹ کیا اور ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی یہ لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے انھیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم
میں بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل سجاۓ ہوۓ ان لوگوں کی طرف آ رہی تھی جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی رکھی ہوئی تھی
وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی اجازت دینے لگے میں نے ان سے کہا
ہماری آج پہلی ملاقات ہے اور ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور آپ نے اتنا تکلف کیوں کیا ؟
بابا جی نے دھیمے سے لہجے میں کہا بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے کچھ دیر بعد چاۓ وغیرہ پی کر میں نے
ابو الکلام اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ ملازمت بھی کرتی تھیں اور گھر کا کام کاج بھی وہی کرتی تھیں ۔
ایک رات کھانے کے وقت انہوں نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھی ۔ میں والد کے رد عمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید
وہ غصہ کا اظہار کریں مگر انہوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اسی اثنا میں میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی ۔ مگر میرے والد نے کہا کہ ان کو یہ روٹی کھا کر لطف آیا ۔
اسی رات اپنے والد کو شب بخیر کہنے میں ان کے کمرے میں گیا تو ان سے سوال کیا کہ کیا واقعی انہیں جلی روٹی کھا کر لطف آیا ؟ انہوں نے پیار سے مجھے اپنے بازؤں میں بھر لیا اور جواب دیا کہ تمہاری والدہ نے ایک پرمشقت دن گزارا اور پھر تھکنے کے باوجود گھر آکر ہمارے لئے کھانا بھی تیار کیا