ابو الکلام اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ ملازمت بھی کرتی تھیں اور گھر کا کام کاج بھی وہی کرتی تھیں ۔
ایک رات کھانے کے وقت انہوں نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھی ۔ میں والد کے رد عمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید
وہ غصہ کا اظہار کریں مگر انہوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور پھر مجھ سے دریافت کیا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا لیکن اسی اثنا میں میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی ۔ مگر میرے والد نے کہا کہ ان کو یہ روٹی کھا کر لطف آیا ۔
اسی رات اپنے والد کو شب بخیر کہنے میں ان کے کمرے میں گیا تو ان سے سوال کیا کہ کیا واقعی انہیں جلی روٹی کھا کر لطف آیا ؟ انہوں نے پیار سے مجھے اپنے بازؤں میں بھر لیا اور جواب دیا کہ تمہاری والدہ نے ایک پرمشقت دن گزارا اور پھر تھکنے کے باوجود گھر آکر ہمارے لئے کھانا بھی تیار کیا
ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی جذبات کو مجروح کرتی ہے ۔
میرے بچے! زندگی بے شمار ناپسندیدہ اشیا اور شخصیات سے بھری ہوئی ہے۔ میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد لوگ اور عزیز واقربا بھی غلطی کر سکتے ہیں
لہذاایک دوسرے کی غلطیوں کودرگزر کرنا،رشتوں کوبخوبی نبھانا اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرناہی تعلقات میں بہتری کاسبب بنتاہےزندگی اتنی مختصر ہےکہ اس میں معذرت اورپچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے
"کاپی"منقول"
مختصرمعلوماتی اسلامی اورتاریخی اردوتحریریں پڑھنےکیلئےاکاؤنٹ فالولازمی کریں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
بڑھاپے_میں_والدین_کو_آپکی_ضرورت_ہوتی_ھے
پراپرٹی ڈیلر نے اشتہار پڑھا
"مکان براۓ فروخت"
اس نے مکان کا وزٹ کیا اور ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی یہ لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے انھیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم
میں بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل سجاۓ ہوۓ ان لوگوں کی طرف آ رہی تھی جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی رکھی ہوئی تھی
وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی اجازت دینے لگے میں نے ان سے کہا
ہماری آج پہلی ملاقات ہے اور ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور آپ نے اتنا تکلف کیوں کیا ؟
بابا جی نے دھیمے سے لہجے میں کہا بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے کچھ دیر بعد چاۓ وغیرہ پی کر میں نے
!!!!!شمس الدّین التمش!!!!
شمس الدّین التمش قراختائی ترکوں کے ایک بہت بڑے گھرانے کا بیٹا تھا۔التمش کے باپ کا نام ایلم خاں تھا۔وہ البری قبیلے کا سردار تھا۔التمش اپنی صورت اور سیرت کے لحاظ سے اپنے تمام بھائیوں میں ممتاز تھا۔اس وجہ سے ایلم خان اسے اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ چاہتا تھا
التمش کے بھائی اس سے خوش نہ تھے۔التمش کےساتھ اسکے دشمنوں نے وہی سلوک کیا جو حضرت یوسف ؑکےساتھ ان کے بھائیوں نے کیا تھا۔التمش کے بھائیوں نے ترکستان کےاس یوسف (التمش) کو گلہ بانی کےبہانے سے قبیلہ البری کے یعقوب (ایلم خان) سے جدا کرکے ایک سوداگر کے ہاتھ بیچ ڈالا۔کچھ عرصے تک اس آقا
کے گھر میں التمش بڑے آرام سے پرورش پاتا رہا لیکن قسمت نے اسے یہاں بھی نہ رہنے دیا اور اسے ایک سوداگر ’’حاجی بخاری‘‘ نے خرید لیا۔اس کے بعد التمش کو سلطان قطب الدین نے خرید لیا۔التمش کے ساتھ ایک ’’ایبک‘‘ نامی غلام بھی تھا۔قطب الدین التمش پر بڑااعتماد کرتا تھا ۔یہاں تک کہ گوالیار کا
!!سلطان نور الدین زنگی!!
نور الدین زنگی ابو القاسم محمود ابن عماد الدین زنگی ترک سلطنت زنگی کے بانی عماد الدین زنگی کا بیٹا تھا جس نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نور الدین فروری 1118ء میں پیدا ہوا اور 1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی۔
اس نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ شروع میں نورالدین کا دارالحکومت حلب تھا۔
549ھ میں اس نے دمشق پر قبضہ کرکے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کرکے کئی قلعوں پر قبضہ کرلیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسا ئیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی
ایک نوجوان اپنے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے، لیکن بیٹے کی خواہش تھی کہ وہ انہیں کسی مہنگے ہوٹل میں ضرور کھانا کھلائے گا، اِسی لیے اُس نے اپنی پہلی تنخواہ ملنے کی خوشی میں ماں باپ جیسی عظیم ہستیوں کے ساتھ
شہر کے مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا۔
باپ کو رعشے کی بیماری تھی، اُسکا جسم ہر لمحہ کپکپاہٹ میں رہتا تھا، اور ضعیفہ ماں کو دونوں آنکھوں سے کم دیکھائی دیتا تھا۔ یہ شخص اپنی خستہ حالی اور بوڑھے ماں باپ کے ہمراہ جب ہوٹل میں داخل ہوا تو وہاں موجود امیر لوگوں نے سیر سے
پیر تک اُن تینوں کو یوں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جیسے وہ غلطی سے وہاں آ گئے ہوں۔
کھانا کھانے کیلئے بیٹا اپنے دونوں ماں باپ کے درمیان بیٹھ گیا۔ وہ ایک نوالہ اپنی ضیعفہ ماں کے منہ میں ڈالتا اور دوسرا نوالہ بوڑھے باپ کے منہ میں۔ کھانے کے دوران کبھی کبھی رعشے کی بیماری کے باعث
اس نے امریکہ اور یورپ کے 55 چوٹی کے پلاسٹک سرجنز کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987ء تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت‘ جلد‘ نقوش اور حرکات و سکنات بدل گئیں۔ سیاہ فام مائیکل جیکسن کی جگہ گورا چٹا اورنسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مائیکل جیکسن دنیا کے سامنے آ گیا۔
اس نے 1987ء میں بیڈ کے نام سے اپنی تیسری البم جاری کی‘ یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی‘ یہ البم بھی کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس البم کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا۔ وہ ملکوں ملکوں ‘ شہر شہرگیا ‘ موسیقی کے شو کئے اوران شوز سے کروڑوں ڈالر
کمائے۔ یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔ اس کے بعد ماضی کی باری آئی ‘ مائیکل جیکسن نے اپنے ماضی سے بھاگنا شروع کر دیا‘ اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا۔ اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لئے‘ اس نے کرائے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لئے اور اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے