سلجوقی سلطنت میں مجاہدین کا یہ ایک گوریلا دستہ تھا جو ' غازی اخوان ' کے نام سے شہرت رکھتا تھا،یہ اپنے بجٹ
پلاننگ اور تمام معاملات میں خود مختار گروپ تھا،حتی کہ یہ بادشاہ وقت کو بھی جواب دہ نہ تھا.
غازی اخوان'کے ٹھکانے موجودہ دور کی
انٹلی جینس ایجنسیوں کے سیف ہاوسز کی طرح خفیہ ہوتے تھے کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ کہاں سے آپریٹ کرتے ہیں.
'غازی اخوان ' کا مشن تب کی دنیا میں کمزور اور ضعیف مسلمانوں کی مدد اور دفاع کرنا تھا.
سلجوقی عہد میں غازی اخوان کے کارنامے زبان زد عام و خاص تھے،صلیبیوں پر ان کا خوف سوار تھا.
ان کے خوف سے کوئی بادشاہ بھی کسی غریب پر ظلم کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچتا تھا.
انطاکیہ کے صلیبی بادشاہ کے بیٹے نے کسی
غریب کے گدھے کو بلا وجہ مارا تھا غازی اخوان نے صلیبی بادشاہ کو مجبور کیا کہ وہ سرعام غریب سے معافی مانگے.
ایک دفعہ غازی اخوان نے بازنطینی حکومت کی قید سے بدلے میں ان کے قیدی دے کر کچھ مسلمان قیدی چھڑا لائے ان مسلمان قیدیوں میں ایک مسلمان عورت
بھی تھی جس کے ساتھ ایک صلیبی فوجی نے رہائی کے وقت بدتمیزی کر لی تھی،اس مسلمان خاتون نے غازی اخوان کو شکایت کی چند دن بعد غازی اخوان نے بازنطینیوں کے کئی نامور افراد کو قیدی بنایا،جب بازنطینی حکومت نے قیدیوں کی رہائی
کیلئے رابطہ کیا تو غازی اخوان نے ایک
انوکھی شرط رکھی،غازی اخوان نے اس مسلم عورت کی جوتی بازنطینی حکومت کے پاس بھیجی اور یہ شرط رکھی کہ یہ جوتی تم تخت شاہی پر رکھ کر پیش کروگے اس جوتے کے بدلے میں ہم تمہارے قیدیوں کو رہائی دیں گے،چونکہ قیدیوں
میں بازنطیبی بادشاہ کے مقربین اور اہم شخصیات بھی تھیں لہذا کچھ پس و پیش کے بعد وہ تیار ہوگئے.
چنانچہ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بازنطینی بادشاہ کی مسند پر ایک مسلم عورت کی جوتی تھی،اور ایک مسلمان
عورت کی جوتی کے بدلے صلیبی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا ،مورخ نے جو دیکھا وہ لکھا.
غازی اخوان میں شمولیت کیلئے حفظ قرآن مجید کی شرط تھی،ان کا لباس اور چال ڈھال الگ تھی،یہ راتوں کو جاگ کر تہجد اور قرآن مجید پڑھتے تھے.
ان
میں کون کون تھے،یہ کتنے افراد کی جماعت تھی یہ آج تک کسی کو معلوم نہ ہوسکا،یہ لوگ عزت سے جیے،مسلم عزتوں کو بچاتے ہوئے جیے اور گمنامی میں گزرے.
پس تحریر : ہمارے دور کے مسلمانوں میں
اتنی جرات ایمانی تو نہیں کہ غازی اخوان کے کردار کو زندہ کرے لیکن اتنا ضرور ہوسکتا ہے کہ کوئی لکھاری اٹھے اور ارطغرل غازی ڈرامہ کی طرز پر 'غازی اخوان ' پر ایک شاندار سکرپٹ لکھے اور اس پر ایک بہترین ڈرامہ بنایا جائے شاید
کہ یوں ہم اپنی نئی نسل کو غازی اخوان کے کارناموں سے
روشناس کرا سکیں گے۔۔
کتاب :مختصر أخبار السلاجقة
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ آسمانی بجلی ضرور ٹکراتی ہے لیکن پھر ان جہازوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ یا پھر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند مخصوص جہازوں میں خفیہ کمرے بھی بنائے جاتے ہیں؟ جی ہاں
ایسا ہوائی جہازوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ان جیسی بہت سے باتوں سے انجان ہوتے ہیں۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو کچھ ایسے ہی 9 انجان حقائق کے بارے میں بتاتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں-
1۔ ہوائی جہازوں کو ایک ایسی خاص مہارت کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آسمانی بجلی ان پر اثر نہیں کرتی- آسمانی بجلی ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور ٹکراتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی-
جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی
دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو سُنا بھی تھا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے عملے کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی
سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں
آج ایک سال کا عرصہ ہو گیا بے روزگار ہوئے اپنے کاروبار کی ابھی پوزیشن نہیں ایک سال میں میری یہی کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی چھوٹی موٹی نوکری حاصل کر کے اپنے مزدور باپ دو معزور بھائیوں اور اپنے گھر والوں کی
مشکلوں میں کمی کا سبب بن سکوں لیکن مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کوئی جاب نہ مل سکی دو چار ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جو صاحب روزگار کر سکتے تھے لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ کسی کے بس میں تھوڑا سا بھی کوئی کام
ہوتا ہے وہ خدا جانے وقت کا فرعون کیوں بن جاتا ہے ہم تو یہی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے وسیلے سے کسی کا بھلا ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن لوگ نہ جانے کیا سوچتے ہیں اللہ جانے
گھر میں بھی فارغ رہ کر دن بدن ڈپریشن کا
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ
کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں