جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی
دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو سُنا بھی تھا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے عملے کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی
سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں
آج ایک سال کا عرصہ ہو گیا بے روزگار ہوئے اپنے کاروبار کی ابھی پوزیشن نہیں ایک سال میں میری یہی کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوئی چھوٹی موٹی نوکری حاصل کر کے اپنے مزدور باپ دو معزور بھائیوں اور اپنے گھر والوں کی
مشکلوں میں کمی کا سبب بن سکوں لیکن مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کوئی جاب نہ مل سکی دو چار ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جو صاحب روزگار کر سکتے تھے لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ کسی کے بس میں تھوڑا سا بھی کوئی کام
ہوتا ہے وہ خدا جانے وقت کا فرعون کیوں بن جاتا ہے ہم تو یہی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہمارے وسیلے سے کسی کا بھلا ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن لوگ نہ جانے کیا سوچتے ہیں اللہ جانے
گھر میں بھی فارغ رہ کر دن بدن ڈپریشن کا
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ
کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
ہم چار لوگ تھے‘ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے‘ گرمی اور حبس تھا‘ ہمیں پسینہ آ رہا تھا‘ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا‘ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا،، میں نوٹ
کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا‘ یہ نوٹ اُڑ کر میرے پاؤں کے قریب پہنچ گیا‘ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پاؤں رکھ دیا...
دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا‘ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا‘ زمین پر بیٹھ کر
میرا پاؤں ہٹایا‘ نوٹ اٹھایا‘ نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا‘ نوٹ کو چوما‘ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا...
ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ گرجاتے ہیں‘ دیکھنے والے ان کی
پچھلے دو دنوں میں عہد وفا مکمل ڈرامہ دیکھا اور ڈرامے میں ہمارے ملکی نظام کے متعلق کچھ چیزیں جاننے کا موقع ملا۔
1۔ ایک فوجی جتنا ملک سے اور قوم سے مخلص ہوتا اتنا محب وطن کوئی نہیں ہوتا۔۔ایک سپاہی کو جب وطن پر جان قربان کرنے کا موقع ملتا ہے وہ پیچھے ہٹنے
کے بجائے سبز ہلالی پرچم پر جان قربان کرنے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے
2۔ تمام بیوروکریٹ نا اہل نہیں لیکن کوئی بیوروکریٹ کام کرنا چاہے تو اس سے اوپر والے افسر کام کرنے کے بجائے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایماندار افسر بھی کرپٹ نظام میں پھس
جاتا ہے۔
3۔ تمام اینکر پرسن اور میڈیا ورکر کرپٹ نہیں لیکن تمام میڈیا مالکان ضرور کرپٹ ہیں جو سچ دکھانے کہ بجائے اپنے مفادات کے مطابق اپنے چینل اور اینکرز کو آپریٹ کرتے ہیں۔