حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سفر پر جا رہے ہیں، جاتے جاتے سفر کے دوران کچھ بھوک لگی، وہ ہوٹلوں، ریسٹورینٹوں کا زمانہ تو تھا نہیں کہ بھوک لگی تو کسی ہوٹل میں گھس گئے اور وہاں جاکر کھانا کھا لیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تلاش کیا کہ آس پاس بستی ہو لیکن
وہاں کوئی بستی بھی نہیں، تلاش کرتے کرتے دیکھا کہ ایک بکریوں کا ریوڑ چر رہا ہے، خیال ہوا کہ اس بکری والے سے کچھ دودھ لے کر پی لیں تاکہ بھوک مٹ جائے، تو دیکھا کہ چرواہا بکریاں چرا رہا ہے اس سے جا کر کہا کہ میں مسافر ہوں اور مجھے
بھوک لگی ہے، مجھے ایک بکری کا دودھ نکال دو تو میں پی لوں، اور اس کی جو قیمت تم چاہو وہ میں تم کو ادا کر دوں۔
چرواہے نے کہا کہ جناب میں ضرور آپ کو دودھ دے دیتا، لیکن یہ بکریاں میری نہیں ہیں میں تو ملازم ہوں، نوکر ہوں بکریاں
چرانے کے لئے مجھے میرے مالک نے رکھا ہوا ہے، اور جب تک اس سے اجازت نہ لے لوں اس وقت تک مجھے آپ کو دودھ دینے کا حق نہیں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کو آزمایا بھی کرتے تھے، آپ نے اس سے کہا کہ میں تمہیں تمہارے فائدے
کی ایک بات بتاتا ہوں، اگر تم اس پر عمل کر لو، پوچھا کیا؟ آپ نے فرمایا ایسا کرو کہ ان بکریوں میں سے ایک بکری میرے ہاتھ بیچ دو، پیسے میں تمہیں ابھی دیتا ہوں، میرا فائدہ تو یہ ہوگا کہ مجھے دودھ مل جائے گا، ضرورت ہوگی تو میں اسے کاٹ کر
گوشت بھی کھالوں گا، اور پھر مالک جب تم سے پوچھے ایک بکری کہاں گئی؟ تو کہہ دینا کہ بھیڑیا کھا گیا، اور اس کی وجہ سے وہ تباہ ہو گئی اور بھیڑیا تو بکریوں کو کھاتا ہی رہتا ہے، کہاں مالک تمہاری تحقیق کرتا پھرے گا، بھیڑیے نے کھایا یا نہیں
کھایا، تم ان پیسوں کو اپنی جیب میں رکھ کر ان کو اپنی ضرویات میں استعمال کرنا، ایسا کر لو اس میں تمہارا بھی فائدہ، میرا بھی فائدہ۔
اس چرواہے نے یہ بات سنی اور سنتے ہی بےساختہ جو کلمہ اس کی زبان سے نکلا وہ
یہ تھا "یا ابن الملک! *فاین الله؟ شہزادے تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں مالک سے جاکر جھوٹ بول دوں اور یہ کہہ دوں کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا، تو اللہ میاں کہاں گئے؟ اللہ تعالٰی کہاں ہے؟
میرا مالک مجھے نہیں دیکھ رہا ہے، لیکن
مالک کا مالک، مالک الملک تو دیکھ رہا ہے اس کے پاس جاکر میں کیا جواب دوں گا، مالک کو تو خاموش کر سکتا ہوں، لیکن مالک کے مالک کو کیسے خاموش کروں گا.
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک تجھ جیسے انسان امت کے اندر
موجود ہیں اس وقت تک اس امت پر کوئی فساد نہیں آسکتا، جن کے اندر اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس موجود ہے جب تک یہ احساس باقی ہے اس وقت تک دنیا میں امن و سکون باقی ہے اور جب یہ ختم ہو گیا تو اس وقت انسان انسان نہ رہے
گا، بلکہ بھیڑیا بن جائے گا، جیسا کہ آج کل بنا ہوا نظر آرہا ہے.
انسان انسان نہیں درندہ بنا ہوا ہے، دوسرے کی بوٹیاں نوچنے کی فکر میں ہے دوسرے کی کھال اتارنے کی فکر میں ہے، دوسرے کا خون پینے کی فکر میں ہے، صرف اس دنیا کے کچھ فائدے حاصل کرنے
کے لئے کہ اس کے کچھ فائدے حاصل ہو جائیں۔
از: *حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم*
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
کرنل نیڈو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا. برصغیر آیا تو ایک گجر لڑکی پر عاشق ہوگیا. گجروں نے اسے اس شرط پر لڑکی دینے کی حامی بھری کہ وہ گجروں کی طرح زندگی گزار کر دکھائے. نیڈو نے ٹاٹ پہنا, جانور چرائے, دودھ دوہا اور بالآخر مسلمان ہوکر اپنی محبوبہ سے شادی کرلی.
اس کی گجر بیوی رانی جی کہلاتی تھی۔ آدمی سمجھدار تھا. اس نے کشمیر میں جانوروں کی نسل کشی کرنی شروع کردی. اور آہستہ آہستہ انگریز رجمنٹس کو گوشت کی سپلائی کا ٹھیکیدار بن گیا. نیڑو کی ایک ہی بیٹی تھی جو ماں کی طرف سے
مکمل گجر تھی اور باپ کی وجہہ سے انگریزی زبان سے مکمل آشنا. نیڈو چونکہ مزہبی لوگوں سے بہت میل جول رکھتا تھا اور پیروں کا بہت خدمتگار تھا لہزا بیٹی بھی اسی رنگ میں رنگ گئی۔
یہ شخص لیبیا کا صدر تها اس کا نام معمر محمد أبو منيار القذافي تها اگر آج یہ شخص زندہ ہوتا تو شاید مسلمانوں کی پہچان ہی کچھ اور ہوتی اس نے 1969 سے لے کر 2011 تک لیبیا میں حکومت کی اور 20 اکتوبر 2011 میں اسے امریکہ نے
ففتھ جنریشن وار کا ہتھیار استعمال کرکے مروا دیا،لیکن کیوں مروایا اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک سب سے بڑی وجہ پیٹرو ڈالر تهی.اس کا ذکر پھر کبھی صحیح فی الحال اس پوسٹ میں آپ سب کو ان قوانین کے بارے میں بتایا جائے گا
جو معمر قذافی نے اپنی حکومت میں قائم کیے تهے.
1۔ لیبیا میں بجلی مفت تهی، پورے لیبیا میں کہیں بجلی کا بل نہیں بھیجا جاتا تها._*
2۔ سود پر قرض نہیں دیا جاتا، تمام بینک ریاست کی ملکیت تھے اور صفر فیصد سود پر
مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا
غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا
تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے
اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا
لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے
جب ایک 12 سال کا بچہ حضور ﷺ کو کافروں سے چھڑانے جاتا ہے
بارہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں
لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا
نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا,
آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو
بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے والے نے شفقت سے پوچھا:
شیرگر‘ نامی یہ گھوڑا جب آئرلینڈ پہنچا تو اسے ’قومی ہیرو‘ قرار دیا گیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد یہ گھوڑا غائب ہو گیا۔
آغاخان سوم سر سلطان محمد شاہ ایک بار بطور لیگ آف نیشن کے سربراہ جرمنی کے دورے پر گئے۔ وہاں ہٹلر نے ان کے ایک
گھوڑے کے بدلے انہیں جرمنی میں تیار کردہ 40 گاڑیوں کی پیشکش کی، مگر آغا خان نے اسے ٹھکرا دیا۔
آغا خان کا خاندان صدیوں سے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے لیے مشہور ہے۔ ویسے تو ان کے گھوڑوں میں ممتاز محل، بہرام، خسرو، مہاراج، طلیار اور زرکاوہ
ریس کورس کی تاریخ میں بہت مشہور ہوئے مگر جو شہرت پرنس کریم آغا خان کے گھوڑے ’شیرگر‘ کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے گھوڑے کے حصے میں نہیں آئی۔