کرنل نیڈو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک افسر تھا. برصغیر آیا تو ایک گجر لڑکی پر عاشق ہوگیا. گجروں نے اسے اس شرط پر لڑکی دینے کی حامی بھری کہ وہ گجروں کی طرح زندگی گزار کر دکھائے. نیڈو نے ٹاٹ پہنا, جانور چرائے, دودھ دوہا اور بالآخر مسلمان ہوکر اپنی محبوبہ سے شادی کرلی.
اس کی گجر بیوی رانی جی کہلاتی تھی۔ آدمی سمجھدار تھا. اس نے کشمیر میں جانوروں کی نسل کشی کرنی شروع کردی. اور آہستہ آہستہ انگریز رجمنٹس کو گوشت کی سپلائی کا ٹھیکیدار بن گیا. نیڑو کی ایک ہی بیٹی تھی جو ماں کی طرف سے
مکمل گجر تھی اور باپ کی وجہہ سے انگریزی زبان سے مکمل آشنا. نیڈو چونکہ مزہبی لوگوں سے بہت میل جول رکھتا تھا اور پیروں کا بہت خدمتگار تھا لہزا بیٹی بھی اسی رنگ میں رنگ گئی۔
کرنل لارنس عربی زبان کا ماہر تھا. اسکی
قرآت بہت اعلی اور معلومات انتہائی جامع تھیں. برٹش سیکریٹ سروس نے لارنس کو لاہور میں لانچ کردیا. جلد ہی مکہ کے بزرگ کی شہرت پھیل گئی. لوگ بہت بڑی تعداد میں آنے لگے اور کرنل لارنس انہیں اپنے ﮈھب یعنی جہاد بالسیف سے برگشتہ کرنے لگا۔
نیڈو اپنے کام کے سلسلے میں لاہور آیا تو اسے بھی ملنے کا اشتیاق ہوا. خدمت میں حاضر ہوس تو جاٹوں والے لباس میں تھا. مکی شیخ سے اس درجہ متاثر ہوا کہ اپنی لڑکی انکے عقد میں دینے کی خواہش کا اظہار کردیا. اور یوں یہ لڑکی کرنل لارنس
المعروف شیخ مکی کی بیگم بن گئی۔
کرنل لارنس کے پاس انگریز معتقدین بھی آتے تھے اور ان میں ایجنسی کے لوگ بھی تھے جن سے شیخ مکی اکیلے ملاقات فرماتے تھے. شادی کے چند دن بعد ایسی ہی ملاقات میں, چیخ مکی نے نئی زوجہ کو
مہمان داری کے لیے کہا. نئی بیگم جب مشروب و ماکولات لیکر کمرے میں گئی تو انگریزی میں ہونے والی تمام گفتگو سے آگاہ ہوگئی. اس نے خفیہ طریقے سے بزریعہ خط باپ کو آگاہ کیا. باپ فورا لاہور پہنچا, بیٹی سے ملا اور پھر کرنل لارنس سے ملکر اپنا
سابقہ تعارف کراکر بیٹی کو طلاق دینے اور باپ کے ساتھ بھیجنے کا مطالبہ کیا. کرنل لارنس نے نیڈو کو خاموش رہنے اور برٹش ایمپائر کی خدمت کا کہا۔
نیڈو یہاں سے مایوس ہوکر رستم زماں بھولو پہلوان کےوالد کے پاس پہنچا اور
تمام رام کہانی کہہ ﮈالی. امام بخش پہلوان سچا عاشق رسول تھا. اپنے شاگردوں کے ساتھ شیخ مکی کے پاس جاپہنچا. شیخ مکی نے اسے درخور اعتنا نہ جانتے ہوئے دھمکیاں دیں اور دفع ہونے کو کہا۔
پہلوان نے شیخ کو اٹھایا اور داتا دربار کے
سامنے برگد کے درخت سے الٹا لٹکادیا کہ جب تک لڑکی کو نہیں چھوڑو گے اور توبہ کرکے واپس نہیں جاؤگے یونہی لٹکے رہوگے.چوبیس گھنٹے بعد کرنل لارنس نے ھتھیار ﮈال دیے. لڑکی کو طلاق دلواکر نیڈو کے ساتھ بھیج دیا گیا اور لارنس کو انگریز
ریزیڑنٹ کے حوالے کردیا گیا جسے فوری برطانیہ بھیج دیا گیا۔
کرنل نیڑو کی لڑکی واپس کشمیر پہنچی تو کچھ عرصے بعد اسکی شادی شیخ عبداللہ سے کردی گئی۔ یوں یہ لڑکی بیگم اکبر
جہاں عبداللہ کہلائیں۔ جنکا بیٹا فاروق عبداللہ بعد میں کشمیر کا وزیراعلی بنا۔ نائڈو کے خاندان نے لاہور اور کشمیر میں شاندار ہوٹلز کے بزنس میں خوب نام کمایا۔
شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لاہور کے موجودہ آواری ہوٹل کی جگہ پہلے نائڈوز ہوٹل تھا۔
بہ حوالہ ثنا اللہ خان احسن
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
یہ شخص لیبیا کا صدر تها اس کا نام معمر محمد أبو منيار القذافي تها اگر آج یہ شخص زندہ ہوتا تو شاید مسلمانوں کی پہچان ہی کچھ اور ہوتی اس نے 1969 سے لے کر 2011 تک لیبیا میں حکومت کی اور 20 اکتوبر 2011 میں اسے امریکہ نے
ففتھ جنریشن وار کا ہتھیار استعمال کرکے مروا دیا،لیکن کیوں مروایا اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک سب سے بڑی وجہ پیٹرو ڈالر تهی.اس کا ذکر پھر کبھی صحیح فی الحال اس پوسٹ میں آپ سب کو ان قوانین کے بارے میں بتایا جائے گا
جو معمر قذافی نے اپنی حکومت میں قائم کیے تهے.
1۔ لیبیا میں بجلی مفت تهی، پورے لیبیا میں کہیں بجلی کا بل نہیں بھیجا جاتا تها._*
2۔ سود پر قرض نہیں دیا جاتا، تمام بینک ریاست کی ملکیت تھے اور صفر فیصد سود پر
مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے ۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا
غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا
تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے
اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا
لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سفر پر جا رہے ہیں، جاتے جاتے سفر کے دوران کچھ بھوک لگی، وہ ہوٹلوں، ریسٹورینٹوں کا زمانہ تو تھا نہیں کہ بھوک لگی تو کسی ہوٹل میں گھس گئے اور وہاں جاکر کھانا کھا لیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تلاش کیا کہ آس پاس بستی ہو لیکن
وہاں کوئی بستی بھی نہیں، تلاش کرتے کرتے دیکھا کہ ایک بکریوں کا ریوڑ چر رہا ہے، خیال ہوا کہ اس بکری والے سے کچھ دودھ لے کر پی لیں تاکہ بھوک مٹ جائے، تو دیکھا کہ چرواہا بکریاں چرا رہا ہے اس سے جا کر کہا کہ میں مسافر ہوں اور مجھے
بھوک لگی ہے، مجھے ایک بکری کا دودھ نکال دو تو میں پی لوں، اور اس کی جو قیمت تم چاہو وہ میں تم کو ادا کر دوں۔
چرواہے نے کہا کہ جناب میں ضرور آپ کو دودھ دے دیتا، لیکن یہ بکریاں میری نہیں ہیں میں تو ملازم ہوں، نوکر ہوں بکریاں
جب ایک 12 سال کا بچہ حضور ﷺ کو کافروں سے چھڑانے جاتا ہے
بارہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں
لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا
نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا,
آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو
بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے والے نے شفقت سے پوچھا:
شیرگر‘ نامی یہ گھوڑا جب آئرلینڈ پہنچا تو اسے ’قومی ہیرو‘ قرار دیا گیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد یہ گھوڑا غائب ہو گیا۔
آغاخان سوم سر سلطان محمد شاہ ایک بار بطور لیگ آف نیشن کے سربراہ جرمنی کے دورے پر گئے۔ وہاں ہٹلر نے ان کے ایک
گھوڑے کے بدلے انہیں جرمنی میں تیار کردہ 40 گاڑیوں کی پیشکش کی، مگر آغا خان نے اسے ٹھکرا دیا۔
آغا خان کا خاندان صدیوں سے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے لیے مشہور ہے۔ ویسے تو ان کے گھوڑوں میں ممتاز محل، بہرام، خسرو، مہاراج، طلیار اور زرکاوہ
ریس کورس کی تاریخ میں بہت مشہور ہوئے مگر جو شہرت پرنس کریم آغا خان کے گھوڑے ’شیرگر‘ کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے گھوڑے کے حصے میں نہیں آئی۔