ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا تھا وہ اپنی دوست سے بہت پیار کرتا تھا- اس لڑکے نے کاغذ کی بہت ساری چیزیں بنا کر اس لڑکی کو گفٹ کی تھیں- اس وقت وہ ایک کمپنی میں ایک خانساماں کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس کا مستقبل کچھ زیادہ روشن نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ
دونوں ساتھ بہت خوش تھے-
ایک دن اس کی دوست نے کہا کہ وہ پیرس جا رہی ہے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گی- اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ساتھ میں ان دونوں کا کوئی خاص مستقبل نہیں دیکھ رہی- تو اب سے ان دونوں کے راستے الگ
الگ ہیں- اس لڑکے کا دل ٹوٹ گیا- لیکن جب وہ اپنے ہوش و حواس میں واپس آیا، اس نے دن رات محنت شروع کر دی- اس نے اپنا دماغ اور طاقت کچھ بننے میں لگا دی- آخرکار اس لڑکے کی محنت اور اس کے
دوستوں کی مدد سے اس نے ایک اپنی کمپنی کھول لی- آپ اس وقت تک نہیں ہارتے جب تک کہ آپ خود کوشش نہ چھوڑ دیں اور خود ہار تسلیم نہ کرلیں- اس لڑکے نے بھی ہار نہ مانی اور پھر اس نے وہ حاصل کر لیا جو وہ چاہتا تھا-
ایک دن تیز بارش ہو رہی تھی- وہ لڑکا اپنی کار میں کہیں جا رہا تھا- اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھے آدمی اور عورت ایک چھتری میں کہیں جا رہے ہیں- چھتری ہونے کے باوجود وہ بھیگ چکے تھے- اسے یہ جاننے
میں زیادہ وقت نہ لگا کہ وہ اسکی دوست کے والدین تھے- اس نے جان بوجھ کر کار کی اسپیڈ ہلکی کر دی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ وہ لوگ اسے اس کی اس شاندار گاڑی میں دیکھیں- وہ چاہتا تھا کہ انھیں پتہ
چلے کہ وہ اب ویسا ہی غریب نہیں رہا ہے- اب اس کی اپنی کمپنی ہے، کار ہے اور سب کچھ ہے- لیکن پھر جو اس نے دیکھا اس منظر نے اسے کچھ حیران کر دیا- وہ لوگ ایک قبرستان کی طرف جار ہے تھے- وہ لڑکا
اپنی گاڑی سے اترا اور ان کے پیچھے چل دیا- اس نے دیکھا کہ ایک قبر پر اس کی دوست کا نام لکھا ہے اور اس کے والدین کے ہاتھ میں اس کی دوست کی تصویر ہے- اس نے دیکھا کہ اس کی بنائی ہوئی کاغذ کی چیزیں اس قبر کے برابر میں رکھی ہیں-
اس کے والدین نے اسے دیکھ لیا تھا- اس لڑکے نے پوچھا کہ یہ سب کب ہوا تو انھوں نے بتایا کہ وہ فرانس کبھی نہیں گئی تھی- اسے کینسر ہو گیا تھا- اسے یقین تھا کہ تم کچھ بن سکتے ہو اس لئے وہ تمہارے راستے میں دیوار نہیں بننا چاہتی تھی- اسی لئے
اس نے تمہیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا-
کبھی کبھی اگر کوئی آپ کو ویسے پیار نہیں کرتا جیسے آپ چاہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ آپ سے پیار ہی نہیں کرتا- اس نے اپنے والدین سے کہا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد یہ کاغذ کی چیزیں اس کی
قبر کے برابر میں رکھ دیں کیونکہ اگر کسی دن قسمت تمہیں یہاں لے آئی تو تم اس کے سچے پیار کو سمجھ جاؤ گے-
وہ لڑکا خود پر قابو نہ رکھ سکا اور رو پڑا- کسی کو یاد کرنے کا درد ناک طریقہ یہ ہوتا
ہے کہ آپ اس کے برابر میں بیٹھ جاؤ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نہ آپ اس کو پا سکتے ہو اور نہ ہی اسے کبی دیکھ سکتے ہو- زندگی میں انھیں وقت دیں جو آپ کے لئے اہم ہیں- کہیں ایسا نہ ہو کہ
کسی دن آپ جاگیں تو اس انسان کو ہی کھو دیں جو آُپ کیلئے بہت اہم تھا-
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
فن لینڈ میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ نوکیا کی کل آبادی تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اسکا رقبہ محض 350 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ قصبہ نوکیا ورٹا دریا کے کنارے آباد ایک انتہائی خوبصورت جگہ جہاں سال کے بیشتر وقت ٹھنڈ رہتی ہے۔
یہاں کی ٹھنڈ بھی ایک جداگانہ اندازرکھتی ہے۔ نوکیا میں برف باری کا بھی ایک خاص سحرانگیز انداز ہے۔ یہاں کے لوگ چلتے ہیں تو دل کش انداز میں اور رکتے ہیں تو پرافسوں انداز میں ۔ ان کا بولنا، ہنسنا، دیکھنا، نہ دیکھنا سب ہی دل آویز ہے۔ جب وہ بات کرنے لگتے ہیں تو ہونٹوں
کو بھی ایک دلربا انداز میں سکیڑتے ہیں۔ کافی پینے کا انداز بھی انتہائی آرٹسٹک اورباقی دنیا سے جدا ہے۔ وہ اپنا لباس بھی ایک خاص دلفریب انداز سے اوڑھتے ہیں ۔ ۔
نوکیا ایک صنعتی شہر ہے جہاں ربڑ، ٹائر، ٹیکسٹائل کی صنعتیں ہیں لیکن اس شہر کی اہم بات "نوکیا" پیپر مل ہے جو 1865
ایک شخص جسے لوگ ٹڈا کہتے تھے۔ اپنی بیوی کو لیکر اپنے مقامی گاوں سے نکل کر دوسرے گاوں میں سیٹل ہوگیا۔ فیصلہ کیا اس نئے گاوں میں نئی شناخت پیدا کروں گا اب لوگ مجھے ٹڈا نہیں پیر صاحب کہیں گے۔ بیگم نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب
دیا اس گاوں کے چوہدری کی بہن کے پاس ایک قیمتی ہار ہے بس تم وہ ہار کسی طرح چرا کر لے آئو۔ پھر دیکھتی جائو۔
بیگم نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہار کمال مہارت سے چرایا، اور لاکر ٹڈے کو دے دیا۔ دوسری جانب گاٗئوں میں ہنگامہ ہوگیا ہار
کی چوری کی خبر جنگل میں درختوں کی طرح پھیل گئی۔ ٹڈے نے اپنی بیوی کو کہاں جائو جاکر چوہدری کی بہن کو بتا آئو کہ میرا خاوند بہت بڑا بزرگ ہے لوگوں کی گمشدہ چیزیں برآمد کرتا ہے۔ اس بات پر
ہو سکتا ہے پاکستان بننا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے پاکستان میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس پر مر مٹنے کا جذبہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہونا بھی اتفاق ہو
ہو سکتا ہے 97 فیصد مسلم اکثریت رہنا بھی اتفاق ہو
ہو سکتا ہے تُرکوں کی پاکستان سے محبت اتفاق ہو
ہو سکتا ہے اس صدی میں بھی عرب ممالک سے بھی زیادہ میرے ملک میں عورت کی
عزت احترام مشرقی روایات ہونا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے ہندوستان، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ کے کُل 3 ارب لوگوں کا 70 سال بعد بھی پاکستان کا کچھ بگاڑ نہ پانا بھی اتفاق ہو...
حضرت آدم علیہ السلام کی جنّتی اولاد اور جہنمی اولاد
معراج کے سفر میں نبی کریمﷺ جب پہلے آسمان پر پہنچے، تو وہاں آپﷺ نے حضرت آدمؑ کو دیکھا، جن کے دائیں جانب بھی لوگوں کی جماعتیں تھیں اور بائیں جانب بھی۔آپﷺ نے دیکھا کہ حضرت آدمؑ جب
دائیں جانب دیکھتے ہیں، تو ہنستے ہیں اور بائیں جانب دیکھتے ہیں، تو روتے ہیں۔آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا’’ اے جبرائیلؑ! یہ کیا ہے؟‘‘اُنہوں نے کہا’’ یہ حضرت آدمؑ ہیں اور
یہ اُن کی اولاد کی روحیں ہیں۔جب دائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جنّتی ہیں، تو ہنستے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جہنّمی ہیں، تو روتے ہیں‘‘(صحیح بخاری،صحیح مسلم)۔اسمِ محمدﷺ عرشِ
الفریڈ نوبیل جس نے تقریباً 250 ملین ڈالرز سے زیادہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی تھی
بہت عرصہ پہلے ایک امیر کبیر شخص نے صبح کافی پیتے ہوئے اخبار اٹھایا اور صفحہ گردانی شروع کی.
اخبار کے پہلے صفحے ہر ہی ایک فوتگی کا اعلان پڑھ کر
کافی کا کپ اس کے ہاتھوں سے گرتے گزرتے بچا. اخبار میں اسے کے اپنے مرنے کی خبر تھی. اخبار نے غلط خبر لگا دی تھی. موت کی خبر سے بھی زیادہ صدمہ اسے اپنے بارے میں لکھی اخباری سرخی سے ہوا:
" بارود کا شہنشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا"
اس کے نیچے لکھا تھا:
" موت کا بیوپاری اگلی دنیا کو سدھار گیا"
خبر کی مزید تفصیل بتاتی تھی کہ مرنے والے نے دنیا میں کیا کیا تباہ کاریاں مچائی