حضرت آدم علیہ السلام کی جنّتی اولاد اور جہنمی اولاد
معراج کے سفر میں نبی کریمﷺ جب پہلے آسمان پر پہنچے، تو وہاں آپﷺ نے حضرت آدمؑ کو دیکھا، جن کے دائیں جانب بھی لوگوں کی جماعتیں تھیں اور بائیں جانب بھی۔آپﷺ نے دیکھا کہ حضرت آدمؑ جب
دائیں جانب دیکھتے ہیں، تو ہنستے ہیں اور بائیں جانب دیکھتے ہیں، تو روتے ہیں۔آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا’’ اے جبرائیلؑ! یہ کیا ہے؟‘‘اُنہوں نے کہا’’ یہ حضرت آدمؑ ہیں اور
یہ اُن کی اولاد کی روحیں ہیں۔جب دائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جنّتی ہیں، تو ہنستے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جہنّمی ہیں، تو روتے ہیں‘‘(صحیح بخاری،صحیح مسلم)۔اسمِ محمدﷺ عرشِ
معلّیٰ پرحضرت عُمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ’’ جب حضرت آدمؑ سے لغزش ہو گئی، تو اُنہوں نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا’’ اے میرے پروردگار! میں آپ سے محمدﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا
ہوں کہ آپ میری مغفرت فرما دیں۔‘‘اللہ ربّ العزّت نے فرمایا’’ تُو نے محمدﷺ کو کیسے جان لیا؟جب کہ میں نے اُن کو اب تک پیدا نہیں فرمایا۔‘‘حضرت آدمؑ نے عرض کیا’’اے پروردگار! جب آپ نے مجھے اپنے ہاتھوں
سے پیدا فرمایا اور مجھ میں جان ڈالی، پھر میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش پر لکھا دیکھا ، لا الٰہ الا اللہ محمّد رسول اللہ، تو میں نے جان لیا کہ جس ذات کا نام، آپ نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے، اس سے بڑھ کر
آپ کے نزدیک اور کوئی محبوب نہیں ہو سکتا۔‘‘تو اللہ نے فرمایا’’ اے آدمؑ! تو نے سچ کہا، وہ میرے نزدیک سب سے محبوب ہیں اور جب تُو نے اُن کے وسیلے سے مجھ سے مانگ لیا، تو پس میں نے
تیری بخشش کر دی اور اگر محمّدﷺ نہ ہوتے، تو میں آپ کو بھی پیدا نہ کرتا‘‘(ابنِ کثیر)۔
مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP
فن لینڈ میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ نوکیا کی کل آبادی تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اسکا رقبہ محض 350 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ قصبہ نوکیا ورٹا دریا کے کنارے آباد ایک انتہائی خوبصورت جگہ جہاں سال کے بیشتر وقت ٹھنڈ رہتی ہے۔
یہاں کی ٹھنڈ بھی ایک جداگانہ اندازرکھتی ہے۔ نوکیا میں برف باری کا بھی ایک خاص سحرانگیز انداز ہے۔ یہاں کے لوگ چلتے ہیں تو دل کش انداز میں اور رکتے ہیں تو پرافسوں انداز میں ۔ ان کا بولنا، ہنسنا، دیکھنا، نہ دیکھنا سب ہی دل آویز ہے۔ جب وہ بات کرنے لگتے ہیں تو ہونٹوں
کو بھی ایک دلربا انداز میں سکیڑتے ہیں۔ کافی پینے کا انداز بھی انتہائی آرٹسٹک اورباقی دنیا سے جدا ہے۔ وہ اپنا لباس بھی ایک خاص دلفریب انداز سے اوڑھتے ہیں ۔ ۔
نوکیا ایک صنعتی شہر ہے جہاں ربڑ، ٹائر، ٹیکسٹائل کی صنعتیں ہیں لیکن اس شہر کی اہم بات "نوکیا" پیپر مل ہے جو 1865
ایک شخص جسے لوگ ٹڈا کہتے تھے۔ اپنی بیوی کو لیکر اپنے مقامی گاوں سے نکل کر دوسرے گاوں میں سیٹل ہوگیا۔ فیصلہ کیا اس نئے گاوں میں نئی شناخت پیدا کروں گا اب لوگ مجھے ٹڈا نہیں پیر صاحب کہیں گے۔ بیگم نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب
دیا اس گاوں کے چوہدری کی بہن کے پاس ایک قیمتی ہار ہے بس تم وہ ہار کسی طرح چرا کر لے آئو۔ پھر دیکھتی جائو۔
بیگم نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہار کمال مہارت سے چرایا، اور لاکر ٹڈے کو دے دیا۔ دوسری جانب گاٗئوں میں ہنگامہ ہوگیا ہار
کی چوری کی خبر جنگل میں درختوں کی طرح پھیل گئی۔ ٹڈے نے اپنی بیوی کو کہاں جائو جاکر چوہدری کی بہن کو بتا آئو کہ میرا خاوند بہت بڑا بزرگ ہے لوگوں کی گمشدہ چیزیں برآمد کرتا ہے۔ اس بات پر
ہو سکتا ہے پاکستان بننا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے پاکستان میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس پر مر مٹنے کا جذبہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہونا بھی اتفاق ہو
ہو سکتا ہے 97 فیصد مسلم اکثریت رہنا بھی اتفاق ہو
ہو سکتا ہے تُرکوں کی پاکستان سے محبت اتفاق ہو
ہو سکتا ہے اس صدی میں بھی عرب ممالک سے بھی زیادہ میرے ملک میں عورت کی
عزت احترام مشرقی روایات ہونا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے ہندوستان، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ کے کُل 3 ارب لوگوں کا 70 سال بعد بھی پاکستان کا کچھ بگاڑ نہ پانا بھی اتفاق ہو...
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا تھا وہ اپنی دوست سے بہت پیار کرتا تھا- اس لڑکے نے کاغذ کی بہت ساری چیزیں بنا کر اس لڑکی کو گفٹ کی تھیں- اس وقت وہ ایک کمپنی میں ایک خانساماں کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس کا مستقبل کچھ زیادہ روشن نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ
دونوں ساتھ بہت خوش تھے-
ایک دن اس کی دوست نے کہا کہ وہ پیرس جا رہی ہے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گی- اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ساتھ میں ان دونوں کا کوئی خاص مستقبل نہیں دیکھ رہی- تو اب سے ان دونوں کے راستے الگ
الگ ہیں- اس لڑکے کا دل ٹوٹ گیا- لیکن جب وہ اپنے ہوش و حواس میں واپس آیا، اس نے دن رات محنت شروع کر دی- اس نے اپنا دماغ اور طاقت کچھ بننے میں لگا دی- آخرکار اس لڑکے کی محنت اور اس کے
الفریڈ نوبیل جس نے تقریباً 250 ملین ڈالرز سے زیادہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی تھی
بہت عرصہ پہلے ایک امیر کبیر شخص نے صبح کافی پیتے ہوئے اخبار اٹھایا اور صفحہ گردانی شروع کی.
اخبار کے پہلے صفحے ہر ہی ایک فوتگی کا اعلان پڑھ کر
کافی کا کپ اس کے ہاتھوں سے گرتے گزرتے بچا. اخبار میں اسے کے اپنے مرنے کی خبر تھی. اخبار نے غلط خبر لگا دی تھی. موت کی خبر سے بھی زیادہ صدمہ اسے اپنے بارے میں لکھی اخباری سرخی سے ہوا:
" بارود کا شہنشاہ دنیا سے رخصت ہوگیا"
اس کے نیچے لکھا تھا:
" موت کا بیوپاری اگلی دنیا کو سدھار گیا"
خبر کی مزید تفصیل بتاتی تھی کہ مرنے والے نے دنیا میں کیا کیا تباہ کاریاں مچائی