#searchthetruth @SearchTheTruth5
برما ڈائری
تحریر:خادم ختم نبوت سہیل باوا
لندن
"برما،شیخ عبدالرحمن باوا اور تحریک ختم نبوت"
مفتی اسمٰعیل گورا صاحب رحمة اللہ علیه کا نام بچپن سے بہت سنتا آرہا تھا فقیر کے 23دسمبر2014 سے2جنوری2015تک کے
برماکےسفر کےدوران یہ بات دیکهنے میں آئی کہ رنگون کےمقتدر علماء کرام کی زبانوں پراب بھی حضرت کا نام موجود تھا
آپ نے حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمة اللہ عليه کے دست مبارک سے دستار فضیلت اور سند حاصل کی
آپ رنگون میں سورتی مسجد کے قریب مغل اسٹریٹ میں گھرنمبر182میں دس سال رہے ،
اس کے بعد مغل اسٹریٹ ہی کے گھر نمبر 42میں رہے آپ بہت نرم مزج انسان تھے مگرجہاں دین کا معاملہ ہوتا وہاں نرمی نہیں کرتے تھے بلکہ حق بات ببانگ دهل کہ دیتےتھے ،برمامیں اپنے زمانہ کے مایہ ناز مفتی تھے،پورے برمامیں حضرت کافتویٰ مقبول تھا،
فتاویٰ کی مقبولیت کو دیکھتے ھوئے حضرت کو جامع مسجد سورتی کے تحت دارالافتاء میں منصب افتاء پر صدر مفتی اور مفتی اعظم جیسی اھم
ذمہ داری سونپی گئی اور آپ عرصہ دراز تک اس منصب عالی پر فائز رھے آپ بھی اپنے اسلاف کی طرح ممتاز مفتی قرار پائے
حضرت مفتى صاحب رحمة الله علیه نے مرکزی
جمیعت علماءبرما کے رکن کی حيثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور اسی طرح ماہنامہ رسالہ ”دورجدید“ کے ایڈیٹر بھی رہے. قوم میں دینی بیداری پیداکرنےکے لئے اداریہ تحریر فرماتے تھے
حضرت مفتی صاحب رحمة الله عليه نے جہاں اور خدمات انجام دیں
وہاں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے فتنے سے مسلمانوں کو آگاہ کر نے کے سلسلہ میں بہت بڑاکردار ادا کیا.
یوں تو قادیانیت ایک طویل عرصہ سے برمامیں اپنی "ارتدادی سرگرمیوں" میں مصروف عمل رہی ہے اوراب بھی جاری ہے.
اس زمانہ میں علماءکرام اس فتنے کے خلاف پیش پیش تھے،
لیکن مفتی صاحب رحمة الله علیه نے اسے باقاعدہ منظم تحریک کی شکل دینے کے لیے تاریخی کردار ادا کیا.
اوراس تحریک لئے اپنے ایک متحرک وفعال خادم خاص حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب کا انتخاب کر کے ان کو تیار کیا جب کہ
(مدرسہ شوکت السلام رنگون کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مفتی نورمحمد صاحب
کےمطابق) ان کی عمر صرف سترہ سال کی تھی.
حضرت عبدالرحمن باواصاحب نے مفتی صاحب رحمة اللہ علیه کی خدمت میں رہ کر تحریک تحفظ ختم نبوت کے کام کو باقاعدۂ سیکھااور اپنےاندر صلاحیت پیداکی۔
حضرت مفتی صاحب رحمة الله علیہ سورتی جامع مسجد کے دارالافتاء میں اس غرض سے کہ کتابیں خراب نہ ہوں
اور دیمک نہ لگے، ہر سال سخت گرمی کے زمانہ میں حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب سےہی خدمت لیتےاور مسجد کے صحن میں کتابوں کو پیھلاتے اور اس میں دواڈالنےکا اہتمام فرماتے.
حضرت مفتی صاحب رحمة الله علیہ کی کوشش ہی کے نتیجہ میں جمیعت علماء برما کی نگرانی میں ایک ادارہ ”مجلس ختم نبوت “ کے نام
سے 8/جنوری 1963کوقائم ہوا. جمیعت علماءبرما نے مجلس ختم نبوت کے لئے ایک مجلس عاملہ نامزد کی جس کے صدرمفتی اسمٰعیل گورا صاحب رحمة الله علیہ،نائب صدر مولانا مقصود احمد خان صاحب ،سیکریٹری حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب مقرر ہوئے.
ان کے علاوہ مولانا عبد الولی مظاہری صاحب ،مولانا نورمحمدرنگونی صاحب،ودیگر حضرات موجود تھے.
سب سے پہلے ختم نبوت مرکز رنگون کی بنیاد ڈالی گئی جوکہ حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب کے والد محترم جناب الحاج یعقوب باواصاحب مرحوم کی دکان کاایک حصہ تھا
اسی پتہ پر ماہنامہ رسالہ ختم نبوت کا اجرا بھی کیا گیاجس کے نگران اعلیٰ مفتی اسمٰعیل گورا صاحب رحمة الله علیہ،اور مدیر مسؤول حضرت عبد الرحمٰن باواصاحب تھے.
1964کے برما انقلاب کےنتیجہ میں مفتی اسمٰعیل گورا صاحب رحمة الله علیہ کو اپنے وطن ”راندیر“ضلع سورت سفر کرنا پڑا ،
اور حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب نےایسٹ پاکستان ہجرت کرلی،اور دس سال قیام کےدوران مجلس ختم نبوت کی تحریک کو جاری رکھا،
حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب کو ایک بار پھر کراچی کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔کراچی پہنچ کر بھی تحفظ ختم نبوت کے لئے جدوجہدکو جاری رکھا،
اور برمارنگون کےبعد پاکستان میں بھی ختم نبوت کے نام سے پہلا ہفت روزہ رسالہ کراچی سے جاری کرانے میں بهر پور کردارادا کیا
اورپرانی نمائش کراچی میں ختم نبوت مرکز کی بنیادرکھی،اور شیخ عبدالرحمن باواصاحب رسالہ ختم نبوت کےمدیرمسؤول نامزد کیے گئے.
بعد ازاں برطانیہ کے علماءکرام کے مطالبہ
اور مفتی احمدالرحمٰن صاحب رحمة الله علیہ کے حکم پر لندن تشریف لے آئے،لندن میں ختم نبوت مرکز کے قیام کی کوشش میں مصروف ہوگئے.
اوربرطانیہ بھر میں تسلسل کے ساتھ محنت ومشقت کرکے ایک نہیں بلکہ دو ختم نبوت کے مراکز قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے،
عالمی مبلغ حضرت عبدالرحمٰن باواصاحب کی سترہ سال کی عمر سے اب تک ہر دور کی عظیم خدمات نمایاں ہی رہی ہیں۔
مفتی اسمٰعیل گورا صاحب رحمة الله علیہ کی فکرو کوشش کے نتیجہ میں ایسے مضبوط افراد تیار ہوئےجوان کی رحلت کے بعد بھی
ان کےاور اکابر کے مشن کولےکر چل رہےہیں.
اللہ تعالیٰ مفتی اسمٰعیل گورا صاحب رحمة الله علیہ کےاس ختم نبوت کےکام کو صدقہ جاریہ بنائے.
اور حضرت عبدالرحمٰن بن یعقوب باواصاحب کے لگائے گئے اس پودے کو جو اب تن آور درخت بن چکا ہے تادیر قائم و دائم رکھے آمین.
#searchthetruth @SearchTheTruth5
مرزا قادیانی کی کتابیں اور مرزائیت کی مشکلات
کتبہ: ✍️ خالد محمود ۔ کراچی ۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ:
اگر واقعی ہی مرزا قادیانی کی کتابیں علمی اور دلائل سے پر ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب علمائے کرام مرزا قادیانی کی کتابوں سے قرآن و حدیث کے خلاف
باتیں بتاتے ہیں ، تو قادیانی مربی ان باتوں کی من مانی تاویلات کرتے نظر آتے ہیں، اور وہ بھی ایسی تاویلات جن کو خود مرزا قادیانی کی کتابوں سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ:
اگر واقعی ہی مرزا قادیانی کی کتابیں پڑھنا قادیانیت کے یہاں اس قدر اہم اور ایمانی مسلہ ہے،
تو ہمارا سوال ہے،کہ قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد نے اب تک کتنی بار مرزا قادیانی کی کتابوں کو پڑھا ہے۔؟ قطع نظر اس سے کہ مرزا مسرور احمد کو قرآن کریم کی تلاوت تک صحیح طور پر کرنی نہیں آتی۔
واٹس ایپ گروپوں میں اکثر قادیانی/ مرزائی یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں،
#searchthetruth @SearchTheTruth5
ختم نبوت کی اہمیت اور فضیلت
،
🌹مولانا قازی مظہر حسین رحمۃ اللہ علیہ💠
*
جناب انجم نیازی اپنی کتاب "" ایک تنہا آدمی"" میں لکھتے ہیں. ایک دن میں ایس ڈی ایم اے صاحب کے پاس بیٹھا تھا پولیس والوں کے چہرے اترے ہوئے تھے اور گھبراہٹ سے ادھر ادھر بھاگ
رہے تھے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ چکوال میں پاکستان احمدیہ کانفرنس کا انعقاد ہونا ہے مصیبت اس بات کی پڑی تھی کہ ان دنوں ایم احمد، ایوب خان کا دست راست تھا اس کی وجہ سے مرزائیت پورے عروج پر تھی اور حکومت کی ساری مشینری ان کے اشاروں پر چلتی تھی.
میں نے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ قاضی مظہر حسین نے الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ یہ جلسہ ان کی لاش پر ہوگا میں نے کہا کیا ایک مولوی کے خوف سے اس قدر سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے؟ جواب ملا ایسا عام مولوی نہیں جس کے لیے ایک اے. ایس. آی کافی ہو
#searchthetruth @SearchTheTruth5
📗 ۔ قرآن کریم ہمارا ایمان ہے ۔
📗 ۔ قرآن کریم ہمارا عقیدہ ہے
⚖️ قرآن کریم کا حوالہ دینے میں علمی امانت و دیانت کا پہلو
⛔ ۔ یا علمی خیانت ؟
📓۔ دور حاضر کے ایک بی اے پاس میڈیا اسکالر کی کتاب مقامات کے حوالے سے۔۔۔۔۔
ایک بی اے پاس میڈیا اسکالر کی کتاب مقامات کا پانچواں ایڈیشن انکے ادارہ المورد نے2019 میں شائع کیا ہے
جس کے دیباچے میں بی اے پاس میڈیا اسکالر لکھتے ہیں :
کہ علم و فکر اور قلم و قرطاس کی دنیا میں کم و بیش ربع صدی کا سفر ہے
اس کتاب مقامات کے صفحہ 178 پر ان کا ایک مضمون بعنوان
ہماری دعوت ہے
جو انہوں نے 2012 میں لکھا
اس میں صفحہ179 کی سطر نمبر 5️⃣ سے ایک پیراگراف شروع ہوکر تیرھویں ستر میں مکمل ہوتا ہے
پیرا گراف کے اخر میں نمبر 2️⃣ کا نشان لگا کر حاشیے میں سورۃ الاعلی کی آیت 14 تا 17 کا حوالہ دیا گیا ہے
#searchthetruth @SearchTheTruth5
📝چندہ وصیت🏞
از شاہد کمال <سابق قادیانی>
چندہ وصیت، وہ وصیت ہے کہ موت کےبعد کل ملکیت اورجائیداد کے دسویں حصے سے ایک تہائی حصہ قادیانی کمیونٹی کو دیا جائے گا اورموصی (وصیت کرنے والےکو)ہرماہ تنخواہ کا زیادہ شرح والا چندہ ساری زندگی ادا کرنا ہے
🎟وصیت بہشتی مقبرہ اورجنت کا ٹکٹ ہےکہ اس کےبغیرجنت میں داخلہ ممکن نہیں اور یہ اسکیم ان کے'مسیح فراڈ' نےاپنی جھوٹی "وحی"کے تحت قائم کی تھی۔
ان کے مطابق یہ ایک رضاکارانہ چندہ ہے لیکن حقیقت یہ ہےان کےعہدہ داروں کووصیت کا عہد قبول کرنے کیلئےدھمکیاں دی جاتی ہیں اورتجویز کردہ شرح سے کم
دینےپربھی سرزنش کی جاتی ہے جیسا کہ مجلس عاملہ کےممبران کو لکھے گئے اس نوٹس سے واضح ہے۔
اس خط میں موصی بن کرمرزا کی دعائیں پانے کالالچ دیا گیا ہے یعنی اگر مرزا کی دعائیں لینی ہیں تووصیت چندہ دینا ضروری ہے۔❓سوال یہ ہے
#searchthetruth @SearchTheTruth5
💰 "زکوٰۃ " قادیانیت چھوڑنے کا سبب بنی 💱
یہ تحریر اتنی زیادہ پھیلائیں کہ ہر قادیانی تک پہنچ جائے✅
✍️ایک سابق قادیانی کی تحریر
"زکوٰۃ سے کوئی فرق نہیں پڑتا"
ایک قادیانی میٹنگ میں سنا گیا یہ جملہ میرے ذہن میں کئی سوالات اور الجھنوں کا
باعث بنا اورمیں نےیہ جاننا شروع کیا کہ کیا واقعی زکوۃ ایک عام قادیانی کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی جبکہ اسلام میں زکوٰۃ ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔
لہذا میں نےاسلام کی اس مالی فرض عبادت کےبارے میں علم حاصل کرناشروع کیا ۔ زکوۃ کا ذکرقرآن میں
کئی جگہ نماز کے ساتھ آیا ہےاوریہ مال کا صرف ڈھائی فیصد ہےاوراس کی ادائیگی کے لئے مالی استطاعت ہونا لازمی ہے ۔
۔اتنا آسان حکم اوراس کا انعام اتنا زیادہ ہے جبکہ قادیانی چندے کو جنت کا راستہ بتاتے ہیں لیکن اسلام میں چندے اورمال کےسولھویں حصےکا کوئ ذکرنہیں۔ لہذا چندہ زکوٰۃ نہیں اور
مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت و مسحیت پر دربار نبوی صلی علیہ وسلم سےکافراوردجال قرار دئیے جانے کے بعد، حضور صلی علیہ وسلم کی موجودگی میں
مرزا قادیانی کے سرپر جوتوں کی بارش کی گئی ،اور جنہوں نےمرزا قادیانی کو کافراور دجال قراردیا ان سے والہانہ محبت اور پیار کا اظہار بھی کیا،عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مرزاقادیانی کے اپنے ہی قلم سے یہ بات بھی لکھوا دی کہ حضور صلی ٰعلیہ وسلم نےان علماءکے بارے فرمایا کہ یہ
میرے علماء( ربانی ہیں (جو ختم نبوت کا پھریراانچا لہرا تے رہتے ہیں آپﷺ نے ان کو بڑی تعظیم کے ساتھ کرسیوں پر بٹھایایہ وہ لوگ ہیں جو رد قادیانیت میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں )ان کے وجود سے مجھےفخر ہے