ایوب خان پر دریا بیچنے کا الزام

قیام پاکستان سے قبل پاک و ہند کا سارا دریائی اور نہری نظام ایک اکائی کے نیچے کام کررہا تھا۔ تقسیم کے وقت برطانیہ نے تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں اور اس نظام کو اسی طرح چلائیں۔ یہ تجویز پاکستان اور انڈیا نے مسترد کر دی۔
پاکستان جانتا تھا اس طرح وہ بھارت کے رحم و کرم پر رہ جائیگا اور نہرو نے تو صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ دریا بھارت کا مسئلہ ہیں۔ اس کی کشمیر کے ہندو راجا کے ساتھ ساز باز شروع ہوچکی تھی۔ اس کو امید تھی کہ دریاؤوں پر اسی کی بالادستی ہوگی۔ یوں انڈیا جب چاہے گا پانی روک کر
پاکستان سے اپنی من مانی شرائط منوا لیا کرے گا۔ پھر ہوا بھی ایسا ہی اور انڈیا کو کشمیر جانے کا راستہ بھی دے دیا گیا۔

تقسیم کے وقت بظاہر پاکستان فائدے میں تھا کیونکہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں تھیں۔ لیکن دوسری جانب کشمیر پر قبضہ
کرنے کے بعد پنڈت نہرو کی منصوبہ بندی کے عین مطابق پاکستانی نہروں کو پانی مہیا کرنے والے دریاؤوں پر انڈیا قابض ہوچکا تھا۔

پنجاب کے پانچوں دریا پاکستان پہنچنے سے قبل انڈیا کے علاقے سے ہوکر گزرتے تھے۔ دریائے سندھ بھی کشمیر کے ایک
حصے پر بھارت کے زیر قبضہ لداخ کے مقام پر بھی بہتا ہے۔ لیکن ہمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وہاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں۔ لیکن باقی دریا خاص طور پر ستلج بھارت کے میدانوں میں میلوں چکر کاٹ کر آتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے دونوں دریاؤوں
راوی اور ستلج پر قائم تمام اہم ہیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے۔ یہ وہ ہیڈورکس تھے جو پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رہے تھے جو پاکستان کے علاقے میں تھے۔ بھارت اس پوزیشن میں تھا وہ جب چاہتا وہ پاکستان کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا اور اسکا
انہوں نے تجربہ بھی کیا۔

بھارت نے آزادی کے فوراًً بعد پاکستان کا پانی روک لیا۔ جس پر پاکستان نے احتجاج کیا اور جنگ کی نوبت آنے لگی تو مارچ 1948ء تک کی مدت کے لیے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور پھر عین اسی دن راوی اور ستلج کا پانی دوبارہ روک لیا جس
دن یہ مدت ختم ہوئی۔ کسانوں نے ابھی گرمیوں کی فضلیں بونی شروع کیں تھیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی پر تنازعات شروع ہوگئے۔ اس سلسلے میں
عارضی بنیادوں پر جو معاہدے ہوئے وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے ۔ کیوں کہ جب برصغیر کے تمام مغربی علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ہوتی تھی تو بھارت پاکستان کا پانی اپنے استعمال کے لیے روک لیتا تھا۔ جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو یہ
پانی پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے منہا کر لیا جاتا تھا ۔ جو پاکستان کے کسی کام نہیں آتا تھا۔

ورلڈ بینک نے دونوں ممالک میں تنازع حل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بالادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔
دریاؤں کے بالائی حصوں پر قبضہ کی وجہ سے بھارت کی بالادستی تھی لیکن پاکستان اپنے ابتدائی سالوں کی سختیاں بھگت کر پختہ ہوچکا تھا۔

ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھ ہی پاکستان نے دریائے سندھ کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ کوٹری بیراج مکمل
ہوا۔ جس سے سندھ کے مشرقی علاقوں میں پانی میسر آیا۔ چشمہ بیراج مکمل کیا گیا۔ اس طرح سندھ اور پنجند کے ارتصال پر اور سکھر کے درمیان گدو بیراج مکمل کیا گیا۔
نئے بیراجوں کی تعمیر سے پاکستان کے مسائل کم ہورہے تھے لیکن پاکستان پنجند
کے پانیوں کو استعمال کرنے کے لیے بدستور بھارت کا محتاج تھا ۔

1960ء میں بلاآخر ورلڈ بینک کی ثالثی سے ایوب خان نے انڈیا کے ساتھ پاکستان کے حق میں ایک بہت بہتر معاہدہ کر لیا جسے سندھ طاس کا معاہدہ کہتے ہیں۔

تین مشرقی دریاؤوں بیاس، راوی اور ستلج
پر انڈیا کا حق تسلیم کیا گیا۔ جب کہ تین مغربی دریاؤوں سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ زیادہ پانی والے دریا ہمارے پاس آئے۔ 16٪ فیصد پانی انڈیا کو جب کہ 84٪ پانی پاکستان کو ملا۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاوَ میں کبھی بھی کوئی مداخلت
نہیں کرے گا۔
یہ ایوب خان کی بہت بڑی جیت تھی جو ایک عالمی ادارے کی ثالثی میں انڈیا کے چنگل سے 84٪ فیصد پانی لینے میں کامیاب رہا۔
اس معاہدے کے تحت ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم
کیا گیا ۔ جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی۔

یہ تھا وہ معاہدہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایوب خان نے تین دریا بیچ دئیے۔

اس معاہدے کے بعد ایوب خان نے تیزی سے ڈیموں کی تعمیر شروع کر دی۔ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا بنایا گیا، منگلا ڈیم تعمیر
کیا گیا۔ پھر ایوب خان بھٹو اور مجیب کے گٹھ جوڑ کا شکار ہوگیا۔ تاہم وہ جاتے جاتے اتنا ضرور کر گیا کہ آج بھی ہماری آدھی خوراک اسی کے بنائے گئے ڈیموں، بیراجوں اور نہروں کے مرہون منت ہے۔

ایوب خان کے بعد ڈیموں پر کام روک دیا گیا۔ انڈیا نے عالمی معاہدوں کی پاؤں تلے
روندتے ہوئے پاکستانی دریاؤوں پر ڈیموں کی تعمیر شروع کر دی۔ کسی نے انڈیا کر روکنے کی کوشش نہ کی۔ یاد رہے کہ انڈیا نے سب سے زیادہ ڈیم ہمارے جمہوری ادوار میں بنائے۔ البتہ پاکستان میں جمہوریت کے چیمپئنز اور قوم پرست جماعتیں ہر بننے
والی ڈیم کی مخالفت کرتی رہیں۔ جس کی وجہ سے انڈیا کے پاس واپس ہمارے ساٹھ فیصد پانی کا کنٹرول جاچکا ہے۔

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP

ہمارا فیس بک گروپ جوائن کریں ⁦👇🏻👇🏻
bit.ly/2FNSbwa

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with علـــمـــی دنیــــــا

علـــمـــی دنیــــــا Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Pyara_PAK

19 Nov
بھیڑیا واحد جانور ھے جو اپنے والدین کا انتہائی وفادار ھے
یہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ھے۔
یہ ایک غیرت مند جانور ھے اسلئے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑیے سے تشبیہ دیتے ھیں Image
." بھیڑیا" واحد ایسا جانور ھے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا بلکہ جس دن پکڑا جاتا ہے اس وقت سے خوراک لينا بند کر ديتا ہے اس لئۓ اس کو کبھى بھى آپ
چڑيا گھر يا پھر سرکس ميں نہيں ديکھ پاتے اس کے مقابلے ميں شیر ، چيتا ، مگر مچھ اور ھاتھى سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ھے۔

بھیڑیا کبھی ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ کھاتا اور یہی
Read 8 tweets
18 Nov
نوکیا موبائل کمپنی کی تاریخ

فن لینڈ میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ نوکیا کی کل آبادی تقریباً تیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اسکا رقبہ محض 350 مربع کلو میٹر ہے۔ یہ قصبہ نوکیا ورٹا دریا کے کنارے آباد ایک انتہائی خوبصورت جگہ جہاں سال کے بیشتر وقت ٹھنڈ رہتی ہے۔
یہاں کی ٹھنڈ بھی ایک جداگانہ اندازرکھتی ہے۔ نوکیا میں برف باری کا بھی ایک خاص سحرانگیز انداز ہے۔ یہاں کے لوگ چلتے ہیں تو دل کش انداز میں اور رکتے ہیں تو پرافسوں انداز میں ۔ ان کا بولنا، ہنسنا، دیکھنا، نہ دیکھنا سب ہی دل آویز ہے۔ جب وہ بات کرنے لگتے ہیں تو ہونٹوں
کو بھی ایک دلربا انداز میں سکیڑتے ہیں۔ کافی پینے کا انداز بھی انتہائی آرٹسٹک اورباقی دنیا سے جدا ہے۔ وہ اپنا لباس بھی ایک خاص دلفریب انداز سے اوڑھتے ہیں ۔ ۔

نوکیا ایک صنعتی شہر ہے جہاں ربڑ، ٹائر، ٹیکسٹائل کی صنعتیں ہیں لیکن اس شہر کی اہم بات "نوکیا" پیپر مل ہے جو 1865
Read 20 tweets
18 Nov
مسکرائیے 😃😃

ایک شخص جسے لوگ ٹڈا کہتے تھے۔ اپنی بیوی کو لیکر اپنے مقامی گاوں سے نکل کر دوسرے گاوں میں سیٹل ہوگیا۔ فیصلہ کیا اس نئے گاوں میں نئی شناخت پیدا کروں گا اب لوگ مجھے ٹڈا نہیں پیر صاحب کہیں گے۔ بیگم نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب
دیا اس گاوں کے چوہدری کی بہن کے پاس ایک قیمتی ہار ہے بس تم وہ ہار کسی طرح چرا کر لے آئو۔ پھر دیکھتی جائو۔

بیگم نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہار کمال مہارت سے چرایا، اور لاکر ٹڈے کو دے دیا۔ دوسری جانب گاٗئوں میں ہنگامہ ہوگیا ہار
کی چوری کی خبر جنگل میں درختوں کی طرح پھیل گئی۔ ٹڈے نے اپنی بیوی کو کہاں جائو جاکر چوہدری کی بہن کو بتا آئو کہ میرا خاوند بہت بڑا بزرگ ہے لوگوں کی گمشدہ چیزیں برآمد کرتا ہے۔ اس بات پر
Read 12 tweets
17 Nov
ہو سکتا ہے پاکستان بننا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا اتفاق ہو
ہو سکتا ہے پاکستان میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناموس پر مر مٹنے کا جذبہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہونا بھی اتفاق ہو
ہو سکتا ہے 97 فیصد مسلم اکثریت رہنا بھی اتفاق ہو

ہو سکتا ہے تُرکوں کی پاکستان سے محبت اتفاق ہو
ہو سکتا ہے اس صدی میں بھی عرب ممالک سے بھی زیادہ میرے ملک میں عورت کی
عزت احترام مشرقی روایات ہونا اتفاق ہو

ہو سکتا ہے ہندوستان، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ کے کُل 3 ارب لوگوں کا 70 سال بعد بھی پاکستان کا کچھ بگاڑ نہ پانا بھی اتفاق ہو...

آخری خلافت سنبھالنے والے تُرکی پر
Read 8 tweets
17 Nov
حضرت آدم علیہ السلام کی جنّتی اولاد اور جہنمی اولاد

معراج کے سفر میں نبی کریمﷺ جب پہلے آسمان پر پہنچے، تو وہاں آپﷺ نے حضرت آدمؑ کو دیکھا، جن کے دائیں جانب بھی لوگوں کی جماعتیں تھیں اور بائیں جانب بھی۔آپﷺ نے دیکھا کہ حضرت آدمؑ جب
دائیں جانب دیکھتے ہیں، تو ہنستے ہیں اور بائیں جانب دیکھتے ہیں، تو روتے ہیں۔آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جبرائیلؑ سے پوچھا’’ اے جبرائیلؑ! یہ کیا ہے؟‘‘اُنہوں نے کہا’’ یہ حضرت آدمؑ ہیں اور
یہ اُن کی اولاد کی روحیں ہیں۔جب دائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جنّتی ہیں، تو ہنستے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں، جو جہنّمی ہیں، تو روتے ہیں‘‘(صحیح بخاری،صحیح مسلم)۔اسمِ محمدﷺ عرشِ
Read 8 tweets
16 Nov
یہ تحریر آپ ضرور پڑھیں

مینڈکوں کا ایک گروہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ان میں سے دو بے دھیانی میں ایک گڑھے میں جا گرے۔

باہر ٹھہرے مینڈکوں نے دیکھا کہ گڑھا ان دو مینڈکوں کی استطاعت سے زیادہ گہرا ہے تو انہوں نے اوپر سے کہنا شروع کر دیا۔ Image
ھائے افسوس، تم اس سے باہر نہ نکل پاؤ گے، کوششیں کر کے ہلکان مت ہونا، ہار مان لو اور یہیں اپنی موت کا انتظار کرو۔

ایک مینڈک کا یہ سب کچھ سن کر دل ہی ڈوب گیا، اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ چند
کوششیں تو کیں مگر اس جان لیوا صدمے کا اثر برداشت نہ کر پایا اور واقعی مر گیا۔

دوسرے کی کوششوں میں شدت تھی اور وہ جگہ بدل بدل کر، جمپ لگاتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوپر والے
Read 8 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!