سائنسی تحقیق کے مطابق کرۂ ارض کی عمر تقریباً 4.5 بلین سال ہے
تقریباً 715 ملین سال پہلے تک زمین برف میں لپٹی ہوئی ایک سفید گیند کی طرح تھی یہ زمانہ “Ice Age” کہلاتا تھا
زندگی ناپید تھی سوائے ایک چائنیز قبیلے کے
اس چائنیز قبیلے کا نام Ni Yawo Xi تھا
اس منجمد کرۂ ارض
++
پر یہ انسانی قبیلہ بہت مشکل سے گزارا کرتا تھا
اتنی سخت سردی میں ہر چیز جم جاتی تھی
یہاں تک کہ اس قبیلے کے لوگوں کی باتیں بھی جم جاتی تھیں
برف کے ٹکڑوں کی شکل میں یہ باتیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف حجم ساخت اور رنگت کی ہوتی تھیں
مثلاً محبت بھری بات گلابی رنگ
++
لڑائی جھگڑے والی بات سیاہ رنگت کی ہوتی تھیں
ایک دوسرے سے بات کرنے کیلئے ان جمی ہوئی باتوں کو چولھے پر گرم کیا جاتا تھا
چولہے کی گرمی سے بات پگھلتی تھی تب جاکر سماعت کے قابل ہوتی تھی
صدیاں بیت گئیں
قبیلہ برف کی نظر ہوگیا
آئس ایج کے بعد کی دنیا نے ترقی تو تحقیق کے
++
دوران سائنسدانوں کو قطب شمالی کے اطراف میں برف کی کھدائی کے دوران ایک سبز رنگ کی برف کی ڈلی ملی
تحقیقاتی ٹیم کے اکثر ارکان کا ماننا تھا کہ یہ اسی قدیم چائنیز Ni Yawo Xi قبیلے کی کوئی منجمد باتوں میں سے ایک بات ہے اور اگر اس بات کو پگھلا کر ڈی کوڈ کرلیا جائے تو یہ تاریخی
++
دریافت ثابت ہوگی
بہت ہی احتیاط کیساتھ اس برف کی ڈلی کو نیویارک کی ایک تجربہ گاہ بھیجا گیا
تجربہ گاہ میں دنیا کے نامور سائنسدان اور تاریخ دانوں کو مدعو کیا گیا
امریکہ کے صدر رونالڈ ریگن کو خاص دعوت دیکر بلایا گیا
تجربہ گاہ کے وسیع و عریض ہال میں خاص اسپیکروں کا انتظام تھا تاکہ
++
اس منجمد بات کو سب حاضرین سن لیں
تمام شرکاء کی موجودگی میں برف کی اس ڈلی کو نکالا گیا اور مخصوص درجہ حرارت پر پگھلایا گیا
برف کی ڈلی کے پگھلتے ہی
ہال کے کونے میں لگے اسپیکروں سے آواز آئی
“اللہ کے نام پہ بابا”
بعد کی تحقیق سے پتا لگا کہ وہ قدیم چائنیز قبیلہ Ni Yawo Xi بعد
++
میں چل کر “نی یاؤ ژی” بنا اور وقت کیساتھ ساتھ “نیازی” قبیلہ بن گیا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی دور دراز کے ملک میں ایک بادشاہ ہوتا تھا
بادشاہ کے اولاد نہیں تھی
بڑی منتوں مرادوں سے اللہ نے ملکہ کی گود ہری کی
لیکن جب بیٹا پیدا ہوا تو بیٹے کے سر پر ایک چھوٹا سا سینگ تھا
بادشاہ بہت پریشان ہوا
یہ بات کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا
محل کی کنیزوں کو سختی سے+
منع کردیا گیا کہ یہ بات کسی کو پتا نہیں لگنی چاہئیے کہ بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہے
کچھ مہینے ایسے ہی گزر گئے
شہزادے کے سر کے بال بڑے ہوگئے تھے
ایک دن ملکہ نے فرمائش کی کہ شہزادے کے بال کٹوا دئیے جائیں
لیکن مسئلہ یہی تھا کہ اگر نائی نے کسی کو بتادیا کہ بادشاہ کے بیٹے کے سر +
پر سینگ ہیں تو بہت شرمندگی ہوگی
خیر ایک راز دار نائی ڈھونڈا گیا
نائی نے جب شہزادے کے بال کاٹنے شروع کئے تو اسے اندازہ ہوا کہ بادشاہ کے بیٹے کے سر پر سینگ ہے۔
قبل اسکے کہ نائی کچھ کہتا
بادشاہ نے اسے کہا کہ اگر یہ بات کسی کو پتا چلی تو تمھارا سر قلم کردیا جائے گا
+
سوچنے کا زرا مختلف پہلو یہ بھی ہیکہ تمام رشتوں کو لیکر عالمی دن منانا اہل مغرب کا وطیرہ ہے
تمام رشتے تقدس کے حامل ہیں اور ہر دن ہونے چاہئیں۔ اہل مغرب کی برق رفتار زندگیوں میں چونکہ ہر دن رشتوں کی تقدیس کو ماننے کی استطاعت نہیں اس لئے رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے سال کا
ایک دن مقرر کر رکھا ہے
جہاں بچہ سولہ سال کا ہوجائے تو ماں باپ کی ذمہ داری نہیں رہتا
جہاں والدین بوڑھے ہوجائیں تو اولاد کی ذمہ داری کے بجائے اولڈ ہاؤس کی ذمہ داری بن جاتے ہیں
وہاں سال میں ایک دن ان رشتوں کیلئے منانا جائز ہے
نہ تو ہمار معاشرہ ہمیں اجازت دیتا ہے رشتوں کو
بوجھ کی طرح اتار پھینکنے کو اور سال میں عید کے نئے کپڑوں کی طرح ایک دن پہننے کو
اس لئے دوسروں کے زرق برق پیرہن سے متاثر ہوئے بغیر سوچئے کہ ہمارے لئے ہر دن والدین کا دن ہے
ہر دن خواتین کا دن ہے چاہے وہ ماں، بہن، بیٹی، بیوی یا کسی بھی روپ میں ہو۔
سردار جی کمپیوٹر آپریٹر کے لئے ایک لڑکے کا انٹرویو لے رہے تھے۔انٹرویو کے دوران سردار نے لڑکے سے پوچھا کہ آپ کتنی سیلری کی توقع کرتے ہیں لڑکا بولا کم از کم ایک لاکھ۔
سردار۔ ٹھیک ہے ساتھ میں ایک فرنشڈ گھر بھی ملے گا
لڑکا چونک کر۔ زبردست ہو گیا
++
سردار۔ اور بنگلے میں کمپنی مینٹینڈ گاڑی بھی ہوگی
لڑکا اچھل کر۔ ونڈر فل سر
سردار۔ اور سال میں دو مہینے کی چھٹی ہو گی
لڑکا۔ کیاااااا واقعی
سردار۔ اور ان چھٹیوں میں سیر و تفریح کیلئے کمپنی اپنے خرچ پر آپ کو فیملی سمیت بیرون ملک بھیجے گی۔
+++
لڑکا غشی کی کیفیت میں۔ سر آپ مذاق تو نہیں کر رہے۔
سردار۔ شروع کس کنجر نے کِیتا سی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دھرنوں سے ملکی معیشت کو نقصان ہوتا ہے