حضرت زکریا کی دعا اور حضرت عیسیٰ کا شجرہ
قرآن بنیادی طور پر ہدایت کی کتاب ہےتو اس کی سورتیں کسی مرکزی نکتہ پر بحث کرتی ہیں اوراس سورت میں اگرکسی پرانی قوم یا نبی کاقصہ آتا ہےتو اس کا اتنا حصہ ہی بیان کیاجاتا ہےجو اس مرکزی نکتہ کوتقویت بخشے. #QuranicReflection#QuranicReflections
اس لئےاگر آپ کو کسی پرانے قصہ کو سمجھنا ہے تو اس کے مختلف سورتوں میں آئے حصوں کو جمع کر کے غور کرنا ہو گا
قرآن بنی اسرائیل کا تذکرہ سب سے زیادہ کرتا ہے. اس تذکرہ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نبی کریم(ص) کی بعثت سے پہلی بنی اسرائیل ہی الله کے پیغام کو دنیا کے سامنے لے جانے کی پابند تھے
جس کو وہ احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکے کیونکہ بنی اسرائیل انتہائی نسل پرست قوم تھی اور انھوں نے الله کے پیغام کو بھی اپنے تک محدود کرلیا۔
ان کی نسل پرستی کی مثال قرآن ان الفاظ میں دیتا ہے. "جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں
"ہم تو صرف اُس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو ہمارے ہاں (یعنی نسل اسرائیل میں) اتری ہے (بقرہ ۹۱) " دوسری طرف مسلمانوں نے جب ہجرت کی تو مواخات کی اعلیٰ مثال قائم رنگ، نسل اور قبیلہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب بھائی بھائی بن گئے
(تقابل ہجرت مدینہ اور ہجرت بنی اسرائیل ایک کتاب مانگتا ہے)
سورہ آل عمران کی آیت ٣٣ اور ٣٤ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا (٣٣) ان (خاندانوں میں سے) میں سے بعض، (ان) بعض (افراد) کی اولاد تھے اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے (٣٤)
یعنیٰ ان میں سے ایک خاندان (ال ابراہیم یعنیٰ یہود کے خاندان) کی نسبت براہ راست حضرت آدم کی طرف گئی ہے، جبکہ دوسرے خاندان (آل عمران یا حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کے خاندان) کی نسبت حضرت نوح کی جانب پھری ہے۔
ایسی ہی آیات سوره مریم (٥٤-٥٨) اور سوره الانعام (٨٣-٨٧) میں بھی ہیں
جن میں الله نےنبیوں کےشجروں کاتذکرہ کیاہےجو بہرحال اس سے مختلف ہےجو یہودیوں اورعیسایوں کےزیراثر ہمارےیہاں رائج ہیں۔ ان ساری آیتوں کاخلاصہ اور ان میں بیان کیےگئےنبیوں کےشجروں کے لئےایک علیحدہ موضوع چاہیے. تاہم یہاں پر صرف یہ بتانا مقصود ہےکہ آل عمران ، آل ابراہیم سےجدا خاندان ہے
حضرت مریم جوکہ حضرت زکریاکےزیرتربیت تھیں،ان کےپاس جب اللہ کی مخصوص عنایات کامشاہدہ حضرت زکریا نےکیا،توانہوں نےاللہ تعالیٰ سےدعاکی۔سورہ ال عمران میں ارشادہوتاہے: ۔۔۔اور (اللہ نے)زکریاؑ کوا س(مریم) کاسرپرست بنادیا،زکریاؑجب کبھی اس کےپاس محراب میں جاتاتو اس کےپاس کچھ نہ کچھ رزق پاتا
پوچھتا مریمؑ! یہ تیرے پاس کہاں سےآیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کےپاس سے آیا ہے، اللہ جسےچاہتا ہے بےحساب دیتا ہے﴿۳۷﴾ یہ حال دیکھ کر زکریاؑ نےاپنے رب کو پکارا "پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے پاک ذریت(ذریۃ طیبۃ)عطا کرتو ہی دعا سننےوالا ہے"﴿۳۸﴾
ان مشاہدات سےحضرت زکریا کواندازہ ہوگیا تھا کہ
بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سےاللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی مخصوص فضیلت کارخ اب غالبا ایک دوسرےخاندان کی جانب پھر رہا ہے، قحط الرجال کےاس دور میں انکو اپنے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایسا شخص نظر بھی نہیں آرہا تھا، جو کہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کر سکے۔ اور اپنے قوم کے
نسبی تفاخر کومدنظر رکھتےہوئےوہ سمجھ رہےتھےکہ کسی غیر اسرائیلی نبی کی اطاعت اتنی آسانی سےقبول نہیں کریں گے، اور اگرموالیوں(یعنی شریعت موسوی کےغیراسرائیلی پیروکار) نےاس بات پر اسرائیلیوں کاتمسخر کیااور پھریہ لوگ اگرکھلے بندوں اس نبی کی مخالفت پرہی اتر آئےتو اللہ کےدربار میں
راندہ درگاہ ہی نہ ہوجائیں۔ اس صورت حال کو اسی تناظر سوره مریم میں زیادہ تفصیل سےاس طرح بیان کیاگیا ہے.
"اُس نےعرض کیا "اے پروردگار، میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سےبھڑک اٹھا ہے اےپروردگار، میں کبھی تجھ سےدعا مانگ کر نامراد نہیں رہا(٤) اور میں اپنےبعد موالیوں سے ڈرتا ہوں
اورمیری بیوی بانجھ ہےتومجھےاپنے پاس سےایک وارث عطافرما(٥) جو میرا وارث بھی ہو اورآلِ یعقوب میں سےمیراث بھی پائے، اور اےپروردگار، اُس کوایک پسندیدہ انسان بنا" (٦)
آل یعقوب کی میراث کا مالک ہو. یہاں پر میراث کالفظ کوئی مال و دولت یا منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کے تناظر میں نہیں آیا
بلکہ اس نبوت کی میراث کےمعنی میں آیا ہےجو آل یعقوب میں چلی آرہی تھی اوروہ خود بھی اس میں شامل تھے.اوراپنےاور بیوی کےبڑھاپے کاتذکرہ بھی اس لیےکیاگیاکہ ان کی کوئی اولادبھی نہیں اوراس عمر میں،اسکی امید بھی نہیں کرسکتے.تو آسان الفاظ میں انھوں نےآل یعقوب میں ایک نبی کی درخواست کی تھی.
چنانچہ اس دعا کاتعلق اولاد مانگنےسے نہیں ہے بلکہ آل یعقوب میں نبوت کےسلسلے کےقائم رہنےسےہے. اور اس کےلئےممکن تھا کہ الله آل یعقوب میں کسی نوجوان کو نبوت عطا کردیتے اور وہ آل یعقوب کی میراث کو پالیتا یا الله کسی بچے کےبارے میں اشارہ دےدیتے جو آل یعقوب کی میراث کوسنبھالنے والابنتا.
اوردعا میں جوکہاگیاکہ مجھےخوف ہےموالیوں سےاس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ حضرت مریم پرہونے والی الله کی رحمتوں سےان کواندازہ ہوگیاتھا کہ ان رحمتوں کےساتھ کہیں نبوت بھی آل یعقوب کی بجائےآل عمران میں نہ چلی جائےاوراگر وہ میراث موالیوں کومل جاتی ہےتوکہیں وہ بنی اسرائیل پرحاوی نہ ہوجائیں
تو سوره آل عمران میں حضرت زکریا نے جو دعا کی اس میں ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً کہا ہے
اگرچہ عام بول چال میں ذریت آل اولاد کو کہتے ہیں لیکن قرآن ذریت کو عام طور پر فالوارز یا ماننے والوں کے لئے استعمال کیا ہے اور آل اور اہل کے الفاظ اولاد کے لئے استعمال کیے ہیں جیسے سوره ھود میں
جب حضرت نوح کا بیٹا ان کے سامنے غرق ہو رہا تھا تو انھوں نے کہا کہ وہ میرا اہل تھا تو الله نے فرمایا کہ وہ تمھارے اہل میں سے نہیں کیونکہ اس کے اعمال صحیح نہیں تھے. جبکہ سوره یونس میں فرعون کے پیچھے چلنے والوں کے لئے ذُرِّيَّةً کا لفظ استعمال ہوا ہے.
تو یہاں جب حضرت زکریا نے اپنی دعا میں جو ذریت طیبہ کہا تو انھوں نے اپنے لیے بیٹا نہیں مانگا تھا بلکہ آل یعقوب کے ماننے والوں میں سے ایک ایسا نیک سیرت جانشین مانگا تھا جس کو وہ آل یعقوب کی نبوت کی میراث دے سکیں اور آل یعقوب میں نبوت کا سلسلہ قائم رہے.
قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے یا ہمارے ایمان کے ٹکڑے
سوره الحجر مکی دور کی سورت ہے جس کا آغاز قرآن پاک کی عظمت سے ہوتا ہے. اس سورت کی ٩١ اور ٩٢ آیات میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے(٩١) پھر تیرے رب کی قسم ہے البتہ ہم ان سب سے سوال کریں گے (٩٢) #QuranicReflections
اگرچہ اس سوره کے اولین مخاطبین تو بیشک کفار مکہ ہی ہیں لیکن قرآن آفاقی ہے اور اس کا آج کے دور میں کیا مطلب ہے یہ بہت اہم سوال ہے. اور اگر اس کا مطلب صرف اسی دور کے لوگوں کے لئے ہوتا تو اس کو پھر قرآن میں کیوں شامل کیا گیا؟ یہ سوالات تھوڑا سا غور و فکر مانگتے ہیں.
اس سورت کےآغاز میں ہی الله نےفرمادیاکہ یہ آیتیں روشن کتاب اورقرآن کی ہیں. اوراگلی آیت کہتی ہےکہ کافر بڑی حسرت کریں گےکہ کاش وہ مسلمان ہوتے.کافر کاترجمہ انکار کرنےوالا ہےاور معمول میں اس سےالله اوراسلام سےانکار کرنےوالےمراد ہوتےہیں لیکن یہاں یہ بھی کہاجاسکتا ہےجس نےقرآن کاانکارکیا