بغداد کے بازار میں ایک حلوائی صبح صبح اپنی دکان سجا رہا تھا کہ ایک فقیر آنکلا تو دکاندار نے کہا کہ باباجی آؤ بیٹھو
فقیر بیٹھ گیا تو حلوائی نے گرم گرم دودھ فقیر کو پیش کیا. فقیر نے دودھ پی کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس حلوائی کو کہا کہ بھائی تیرا شکریہ اور یہ کہہ کرفقیرچل
پڑا۔
بازار میں ایک فاحشہ عورت اپنے دوست کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ کر موسم کا لطف لے رہی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی، بازار میں کیچڑ تھا، فقیر اپنی موج میں بازار سے گزر رہا تھا کہ فقیر کے چلنے
سے ایک چھینٹا اڑا اورفاحشہ عورت کے لباس پر گر گیا۔ جب یہ منظر فاحشہ عورت کے دوست نے دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا۔ وہ اٹھا اور فقیر کے منہ پرتھپڑ مارا اور کہا کہ فقیر بنے پھرتے ہو، چلنے پھرنے کی تمیز نہیں؟
فقیر نے ہنس کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا
مالک تو بھی بڑا بے نیاز ہے، کہیں سے دودھ پلواتا ہے اور کہیں سے تھپڑ مرواتا ہے.. یہ کہہ کر فقیر آگے چل پڑا،
فاحشہ عورت چھت پر چل رھی تھی تو اس کا پاؤں پھسلتا ہے اور زمین پر سر کے بل
گر جاتی ہے، اس کو ایسی شدید چوٹ لگتی ہے کہ موقع پر ہی فوت ہوجاتی ہے۔
شور مچ گیا کہ فقیر نے آسمان کی طرف منہ کر کے بدعا دی تھی، جس کی وجہ سے یہ قیمتی جان چلی گئی
فقیر ابھی بازار کے دوسرے کونے تک نہیں
پہنچ پائے تھے کہ لوگوں نے فقیر کو پکڑ لیا اور کہا کہ بڑے فقیر بنے پھرتے ہو، حوصلہ بھی نہیں رکھتے ہو
فقیرنے کہا کہ کیا ہوا میاں؟ لوگوں نے کہا کہ تم نے بددعا دی اور عورت کی جان چلی گئی
فقیرنے کہا کہ واللہ میں نے تو کوئی بددعا نہیں دی تو لوگوں نے ضد کی اور کہا کہ نہیں تیری بددعا کا کیا دھرا ہے۔
جب لوگوں نے ضد کی تو فقیر نے کہا کہ اصل بات پوچھتے ہو تو میں نے کوئی بددعا نہیں کی، یہ یاروں یاروں کی لڑائی ہے.
لوگوں نے کہا کہ وہ کیا؟ فقیر نے کہا کہ جب میں گزر رہا تھا اور میرے پاؤں سے چھینٹا اڑا اور اس عورت کے لباس پر پڑا تو اس کے یار کو غصہ آیا، اس نے مجھے مارا تو پھر میرے یار کو بھی غصہ آگیا........!!!
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
✳🔸مزاج عشق رسولﷺ🔸✳
🌻پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ھیں ـ
🔥 کہ میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حاضر تھا ایک شخص "کریم بخش لاھوری" نامی جو بارہ سال سے مدینہ منورہ میں مقیم تھا ـ مواجہ شریف کے سامنے سلام
پڑھ کر کھڑا تھا ـ
🔥میں اُسکا ھاتھ پکڑ کر اپنے مکان میں لے آیا اور اسے ایک کُرتہ دیا ـ میرے ایک رفیق نے اسے ایک قیمتی کوٹ ـ ایک نے پگڑی ـ ایک نے پاجامہ اور ایک نے چادر دی ـ اس نے سارے کپڑے چادر میں لپیٹ لیئے اور کپڑے لیتے وقت کہا ـ کہ جب آپ نے
میرا ھاتھ پکڑا تھا تو اس وقت میں حضورﷺکی بارگاہِ اقدس میں عرض کر رھا تھا کہ آقاﷺ کپڑے پھٹ گئے ھیں ـ!
🌻پھر وہ شخص کپڑے لے کر چلا گیا غسل کر کے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر دربارِ عالیہﷺ میں دست بسۃ حاضر ھوا اور عرض کی ـ "آبروئے چشمِ خورشید ﷺ "
یورپ میں فیملی کا کوئی تصور نہیں ہے
یوں کہہ لیں کے بہن بھائی ماں باپ دادا دادی کی کوئی تمیز نہیں ہے
جنسی ضرورت کے لئے شادی کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ جانوروں کی طرح وہاں رشتے گڈ مڈ ہیں ...
وہاں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے کوئی
شوہر نہیں ہے جو کہے بیگم تم گھر رہو میں ہر چیز تمہیں گھر لا کے دونگا.
وہاں کوئی بیٹا نہیں ہے جو کہے ماں تم گھر سے نہ نکلو مجھے حکم دو.
وہاں کوئی بیٹی نہیں ہے جو کہے ماں تم تھک گئی ہو آرام کرو میں کام کر دونگی
وہاں عورت گھر کے کام خود کرتی ہے...
اور روزی کمانے کے لئے دفتروں میں دھکے بھی خود کھاتی ہے.
کل تک آزادی کے نعرے لگانے والی آج سکون کی ایک سانس کو ترس رہی ہے.
کوئی مرد انہیں نہیں اپناتا
نہ ان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے.
وہ صرف استعمال کی جاتی ہیں بس...
مسلمان عورتو !
ڈرامہ ارطغرل دیکھنے والوں کو اسکا بھی علم ھونا چاھئے۔
جب مصطفی کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا تو آل عثمان كو راتوں رات گھریلو لباس ہی میں یورپ بھیج دیا گیا
شاہی خاندان (ملکہ اور شہزادوں) نے التجا
کی کہ یورپ کیوں؟ ہمیں اردن، مصر یا شام کسى عرب علاقے ہی ميں بھیج دیا جائے لیکن صہیونی آقاؤں کی احکامات ت واضح تھیں،
اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنا ان کو آخری درجے ذلیل کرنا مقصود تھا،
چناں چہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا، اور آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور ان کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا
اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس