انڈیا میں ایک ہندو تھا اس کا کہنا تھا کہ اذان کو جب ادب والا دے تو اس کی آواز میں دلوں کو کھینچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اسی ہندو کا کہنا تھا کہ جب اس نے ہوش سنبھالا تو سب ہی نہیں مگر کسی کسی کی اذان مجھ میں بیقراری پیدا کر دیتی تھی یہ بات میں نے اپنے 👇
کئی گرووں سے بھی کی ان میں سے ایک نے کہا آج مسلمانوں کی اذان کا حال یہ ہے کہ دعوت دی جاتی ہے مرغ مسلم کی مگر جب کوئی مسجد میں جاتا ہے تو دستر خوان ہی موجود نہیں ہوتا، سب خالی ہاتھ ہوتے ہیں نہ کوئی استقبال کرنے والا ، نہ کوئی حال چال پوچھنے والا اور کوئی بھی تو ایسا نہیں ہوتا 👇
جو اذان کے دعویٰ میں اعلان و اقرار ہے اس کی ہلکی سی بھی رمق کہیں دیکھائی دے یا سنائی دے، اذان پر لبیک کہنے والے اپنا سا منہ لے کر واپس آجاتے ہیں۔
مسلمان آج سوئے ہوئے لوگ ہیں انہیں نیند میں چلنے کی عادت ہے ان کی کسی حرکت کو ہوش نہیں سمجھنا چاہئے۔ 👇
انہیں یاد ہی کچھ نہیں تو بتائیں کیا اور دیکھائیں کیا، یہ کس بات کا کسے کیا ثبوت دیں اس لئے کہ یہ جاگے ہوئے ہی نہیں۔ جس دن ان کے خواہ کتنے ہی قلیل ترین جاگ گئے اس دن تم جیسے تمام ہندو مسلمان ہوجائیں گے۔ آج اذان اسلام کا محض تعارف ہے، نہ آج یہ مسلمانوں کا شعور ہے 👇
نہ ان کی حالت کا ثبوت ہے اور نہ ہی ان کے دل کی آواز ہی ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اگر کوئی محرمات کے ساتھ زنا کرلے، مثلاً ساس سے زنا کرلے یا بیٹی سے زنا کرلے تو اس کی سزا کیا ہے؟ اور عصر حاضر میں تعزیر کا اختیا ر کس کو ہے؟
جواب
’’زنا‘‘ کبیرہ گناہوں میں سے سخت ترین گناہ ہے، پھر اگر کسی محرم سے کیا جائے تو اس گناہ کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے، 👇
تاہم ’’زنا‘‘ کی شرعی سزا (حد) مقرر ہے، اور کوئی شخص چاہے محرمات میں سے کسی کے ساتھ اس فعل کا ارتکاب کرے یا اجنبیہ کے ساتھ دونوں صورتوں میں زانی فاسق وفاجرہے، بصورتِ ثبوتِ جرم شریعتِ محمدیہ میں اس پر ’’حدِّ زنا‘‘ کانافذکرنالازم ہے، لیکن اس کے نفاذ (اور تعزیرات کے نفاذ) کا 👇
انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن 👇
جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔
👇
اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تو👇
ائمہ واسلاف کا طرز عمل یہی رہا کہ اختلافی مسائل میں تشدد نہ اختیار کیا جائے، خاص طور پر جن مسائل میں ایک سے زائد موقف ہوسکتے ہیں، ان میں کسی ایک کو متعین طور پر حق اور دوسرے کو حتمی طور پر باطل قرار نہ دیا جائے، اس کے ثبوت میں متقدمین ومتاخرین کی بہت سی عبارتیں پیش کی جاسکتی 👇
ہیں؛ لیکن اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کی عبارت پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں، علامہ فرماتے ہیں:👇
(فتاویٰ ابن تیمیہ، ج:۲۳، ص:۲۵۴)
ترجمہ:ہر بندٴہ مومن پر، عام اہلِ ایمان اور علما سے محبت کرنا واجب ہے اور حق جہاں بھی ہو اس کا قصد اور اتباع واجب ہے اور یہ جاننا بھی واجب ہے کہ مجتہد مصیب کے لیے دو اجر کا وعدہ کیاگیا ہے اور اگر مجتہد سے اجتہاد میں خطا ہوجائے تو 👇
حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے خطبہٴ صدارت کا یہ اقتباس پوری ملت کی توجہ کا مستحق ہے:
”آج کے پُرآشوب حالات میں امتِ مسلمہ کا اتحاد گذشتہ ہر دور سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے فروعی اختلافات کو 👇
اپنے گھر تک محدود رکھیں اور دشمنوں کے مقابلہ میں ایک متحد امت کا کردار پیش کریں؟ کیا ہمارے لیے صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بہترین اسوہ نہیں؟ کہ انھوں نے عین اس زمانے میں جب وہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے، 👇
روم کے بادشاہ کی جانب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی دعوت کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور ملت میں تفریق کے اُس داعی کو یَا کَلْبَ الرُّوْمِ کے الفاظ سے مخاطب کرکے ٹھوس لفظوں میں بتادیا کہ اگر اُس نے حضرت علی رض کے زیرحکومت علاقوں کی طرف نظر اٹھاکر بھی دیکھا 👇
ہمارے اکابر کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ امت کو ہرحال میں قرآن وسنت کا پابند رہنا اور کتاب وسنت کی تشریح اور ان پر عمل کے بارے میں حضراتِ صحابہٴ کرام رض اور ائمہ واسلاف کے منہاج پر کاربند رہنا ضروری ہے، اور جو لوگ اس متوارث طرزِ فکر وعمل کے خلاف نئی باتیں پیش کریں اور 👇
امت کو انتشار میں مبتلا کریں ان کی تردید کرنا اور ان کی غلطی کو واضح کرنا، علماءِ امت کا فرض منصبی ہے؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملینِ علم دین کے یہی فرائض درج ذیل حدیث میں وضاحت سے بیان فرمائے ہیں:
👇
امام صاحب کے اہم اصول میں سے ہے کہ ”حدیثِ ضعیف“ اور ”مرسل حدیث“ قیاس سے افضل ہے، جس سے آپ کی عظمت حدیث کا بین ثبوت ملتا ہے، اسی قاعدے پر ان کے مذہب کی بنیاد ہے، اور اسی قاعدے کی وجہ سے :👇
(۱) رکوع سجدے والی نمازمیں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ جنازے کی نماز میں نہیں ٹوٹتا۔ (۲) نبیذ تمر سے سفر میں وضو ہوجاتا ہے۔ (۳) دس درہم سے کم کی چوری پر، چور کا ہاتھ نہیں کٹتا۔ (۴) حیض کی اکثر مدت دس دن ہوتی ہے۔ (۵) جمعہ کی نماز میں مصر کی قید لگانا اور 👇
کنویں کے مسئلے میں قیاس نہ کرنا، یہ سب وہ مسائل ہیں جن میں قیاس کا تقاضا کچھ اور تھا؛ مگر ”احادیثِ ضعیفہ“ کے ہوتے ہوئے قیاس کو ردی کی ٹوکری میں رکھ دیا۔(۳۷)جس سے علم حدیث کے تعلق سے آپ کی غایت شغل کا اندازہ ہوتا ہے؛ اسی پر بس نہیں؛ بلکہ قیاس کی چار قسموں 👇