داریوش پہلا عظیم فاتح تھا۔
داریوش نے 550 قبل از مسیح افغانستان فتح کیا تھا اور وہ ایران سے آیا تھا۔
سکندر اعظم دوسرا عظیم فاتح تھا۔
سکندر اعظم نے تقریباً 330 قبل از مسیح افغانستان فتح کیا اور یہاں سے داریوش حکومت کا خاتمہ کیا۔ سکندر
اعظم یونان سے آیا تھا۔
سکندر اعظم کی وفات کے بعد اس کے جنرل سیلیکس نے افغانستان پر قبضہ جما لیا۔ وہ بھی اپنے وقت کا ایک عظیم حکمران اور فاتح ثابت ہوا۔ سیلیکس بھی یونانی تھا۔
ڈیوڈوٹس ون بھی ایک عظیم فاتح تھا
جس نے 250 قبل از مسیح سیلیکس کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کیا۔ ڈیوڈوٹس بھی یونان سے آیا تھا۔
ان کی حکومت کا خاتمہ یوژری قبائل نے کیا۔ جنہوں نے یونانیون کو شکست دے کر افغانستان پر قبضہ کیا۔ یوژری نامی یہ عظیم فاتحین چین سے آئے تھے۔ یہ 130
قبل از مسیح کی بات ہے۔
اس کے بعد دوبارہ کچھ ایران سے کچھ فاتحین آئے لیکن وہ سب نئے عظیم فاتح چندر گپت موریا سے شکست کھا گئے جس نے سب کو شکست دے کر افغانستان کو فتح کر لیا تھا۔ چند گپت موریا پنجاب سے آیا تھا۔
گوتمی پترا سکرنی بھی عظیم فاتح تھا۔
موجودہ انڈیا دکن سے آیا تھا اور افغانستان پر کچھ عرصہ کے لیے حکومت کی۔ یہ تقریباً 100 سال بعد از مسیح کا دور تھا۔
اس کے بعد عظیم فاتح گند فر نے افٖغانستان فتح کیا۔ آپ کا تعلق ایران سے تھا۔ یہ بھی 100 سال بعد از مسیح کا دور تھا۔
ان کے بعد
کوجولو کادی فیسس نامی عظیم الشان فاتح آیا اور افغانستان فتح کر کے یہاں پر کوشان سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ عظیم فتح بھی نسلاً چینی تھا۔
افغانستان پر قابض کوشان سلطنت کا خاتمہ عظیم فاتح شاہ پور اول نے کیا۔ شاہ پور اول ایران سے آیا تھا جس نے یہاں افغانستان میں
ساسانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ کئی مورخین کے نزدیک شاہ پور اؤل ہی وہ بادشاہ ہے جس کے دور میں پہلی بار اس خطے کے رہنے والوں کے لیے لفظ "ابگان" استعمال ہوا۔ یہ سن 270ء کا دور تھا۔
ساسانی سلطنت کا خاتمہ وسطی ایشیا سے آکر افغانستان فتح کرنے والے ہونا قبائل کے ہاتھوں ہوا۔
کئی سو سال تک افغانستان عظیم ایرانی اور وسطی ایشیائی فاتحین کے درمیان سینڈوچ بنا رہا۔ کہ سن 500 میں اسلام کا ظہور ہوا۔ عربوں نے ایران فتح کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے کئی علاقون کو فتح کر لیا۔
وہ صحابہ یا تابعین کا دور تھا جو علاقے فتح کرنے کے
ساتھ ساتھ اسلام بھی پھیلاتے رہے لیکن افغانستان میں انہیں اس حوالے سے ایک شدید مشکل پیش آئی۔
کئی مورخین کے مطابق افغانستان کے علاقوں ہرات اور سیستان میں عرب مجاہدین اسلام پھیلاتے۔ مقامیوں کو حکومت حوالے کرتے۔ لیکن جیسے ہی ان کا کنٹرول کمزور ہوتا
مقامی (افغانی) دوبارہ اپنے پرانے عقائد کی جانب لوٹ جاتے۔
مسلمان عرب فاتحین نے افغانستان میں ہندو شاہی نامی حکومت کا خاتمہ کیا جو مشہور ہندؤوں کی حکومت تھی اور موجودہ انڈیا سے آئے تھے۔
عربوں کا افغانستان پر کنٹرول ختم کرنے اور افغانستان میں عظیم خود مختار
ریاست بنانے کا کارنامہ مشہور عظیم فاتح سبکتگین کے ہاتھوں ہوا۔ جس نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ سبکتین ترک تھا۔ یہ 970ء کا دور تھا۔
محمود غزنوی نامی عظیم فاتح کو کون نہیں جانتا۔ نہ ہی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس نے ہندوستان پر سترہ کیا کیے تھے۔ :) محمود غزنوی
سبکتگین کا بیٹا تھا اور نسلاً ترک تھا۔
محمود غزنوی نامی ترک کی عظیم سلطنت کا خاتمہ ایک دوسرے عظیم افغان فاتح شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہوا جو پشتو زبان بولتا تھا اور نسلاً تاجک تھا۔ یہ 1200ء کا دور تھا۔
اس کے بعد افغانستان عظیم فاتح چینگیز خان کے ہاتھوں فتح ہوا۔
جس نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی۔ چینگیز خان منگول تھا۔ یہ 1220ء کا دور تھا۔
عظیم حکمران جلال الدین خلجی اور علاؤالدین خلجی نے بھی افغانستان کے کچھ حصوں کو کچھ عرصہ کے لیے فتح کیا۔ خلجی نسلاً ترک تھے اور ان کا پایہ تخت دہلی تھا۔
منگولوں کی حکومت کا خاتمہ مشہور فاتح تیمور کے ہاتھوں ہوا۔ تیمور وسطی ایشیاء سے آیا تھا اور نسلاً ترک منگول تھا۔
افغانستان 1540ء میں عظیم فاتح بابر کے ہاتھوں دوبارہ فتح ہوا۔ بابر بھی تیمور کی ہی نسل سے تھا۔ تیمور اور بابر دونوں ازبکستان سے آئے تھے۔
مشہور فاتح ابراہیم
لودھی نے بھی کچھ عرصہ افغانستان پر حکومت کی تھی۔ آپ پشتون تھے اور افغانستان فتح کرنے ملتان سے تشریف لے گئے تھے۔
اس کے بعد 1730ء میں مشہور فاتح نادر شاہ درانی نے افغانستان پر دھاوا بولا اور ایران کے خلاف بغاوت کرنے والی ہوتکیوں کا قلع قمع کیا۔ نادر شاہ ایران سے تشریف
لائے تھے۔
افغانستان پر 1750ء کے بعد مشہور فاتح احمد شاہ ابدالی یا احمد شاہ درانی نے حکومت کی۔ آپ نسلاً سفید ہن تھے اور ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔
سیمول براؤن بھی فاتح ہیں۔ انہوں نے 1890ء میں افغان حکمرانوں کو شکست دے کر ان کو اپنا وظیفہ خوار بنایا۔ آپ کا تعلق انگلینڈ سے تھا۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
گزشتہ دنوں انڈونیشیا کے ھوائ جہاز کو پیش آنے والے حادثہ کے تین یوم بعد امدادی کارکنوں نے اس بچے کو سمندر سے ذندہ نکال لیا ھے۔ خیال کیا جاتا ھے کہ جب اسکی ماں کو یہ یقین ھو گیا کہ اب تقدیر کا لکھا نہیں ٹل سکتا تو اس نے بچے کو نشست کے نیچے موجود لایئف جیکٹ میں
باندھ کر اسکے خالق و مالک کے حوالے کر دیا اور اس ذات پاک نے اپنی مشیئت، حکمت اور تدبیر سے اسکی ماں کی اس آخری خواھش کو پورا فرما دیا۔ سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ
وہ کون ھے جس نے اسکی ماں کے ذھن میں اسے بچانے کیلیے یہ تدبیر پیدا کی؟ وہ
کون ھے جس نے اسے اتنے روز سمندر کی تند وتیز لہروں کے غیض و غضب سے بچاے رکھا ؟ وہ کون ھے جس نے اسے اتنے روز سمندر کی تہہ میں جانے سے محفوظ رکھا ؟ وہ کون ھے جس نے اتنے روز اسکے ننے منے جسم کو سمندر میں موجود خوفناک مخلوق کا لقمہ نہیں بننے دیا ؟ وہ
ہد ہد وہ واحد پرندہ ھے جو زندگی میں صرف ایک بار شادی کرتا ہے۔اور اپنے جیون ساتھی کے وفات کے بعد اکیلے ہی زندگی گزارتا ہے۔یہ اپنی مادہ مہر کو کھانے کی کوئی چیز پیش کرتا ہے۔ آگر وہ اسے کھا لےتو اس کا مطلب ھے کہ وہ شادی کے لیے راضی ھے۔ پھر نر اس مادہ کو اپنے
گھونسلے کی طرف لے کر جاتا ہے۔اکثر اوقات کسی درخت میں سوراخ کرکے بنایا ہوتا ھے۔اگر اسکو پسند آ جائے تو دونوں رشتہ زواج میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ مادہ ہمیشہ ہر موسم میں عموماً چھ سے آٹھ آنڈے دیتی ھے اور بچے پیدا ہونے کے بعدباری باری خوراک کا بندوست کر لیتی ھے عجیب
بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی کو خوراک کی چیز مل جائے تو وہ اسے اکیلے نہیں کھاتے۔ بلکہ دونوں اکھٹے ہونے کے بعد ہی اسے کھا لیتے ہیں۔
ہد ہد کی چھٹی حس اتنی تیز ہوتی ھے۔کہ وہ زمین کے اوپر سے ہی پانی کو محسوس کر لیتا ہے۔اسی وجہ سے حضرت سلیمان
ھرات میں ایک سادات فیملی تھی ۔خاتون جوانی میں بیوہ ہوگئیں ۔بچوں والی تھیں ۔تنگ دستی آئی توانہوں نے سمرقندکی طرف ہجرت کی ۔وہاں پہنچیں تولوگوں سے پوچھاکہ یہاں کوئی سردار،کوئی سخی ہے ؟؛لوگوں نے بتایاکہ یہاں دوسردارہیں ۔ایک مسلمان ہے اورایک آتش پرست ۔خاتون
مسلمان سردارکے گھرگئیں اورکہاکہ میں آل رسولﷺ ہوں ،پردیسن ہوں ،نہ کھانے کوکچھ ہے نہ ہی رہنے کاکوئی ٹھکانہ ہے ۔ سردارنے پوچھا:تمھارے پاس کوئی نسب نامہ ہے ؟ ’’خاتون نے کہا‘‘:بھائی میں ایک نادارپردیسن ہوں ،میں سندکہاں سے لاؤں ؟ ’’وہ کہنے لگا‘‘:یہاں توہردوسراآدمی
کہتاہے کہ میں سید ہوں ،آل رسولﷺ ہوں ،یہ جواب سن کروہ خاتون وہاں سے نکلیں اورمجوسی سردارکے پاس گئیں ۔وہاں اپناتعارف کرایااس نے فورا اپنی بیگم کوان کے ہمراہ بھی جاکہ جاؤان بچیوں کولے آؤ،رات سردہے ،خاتون اوران کی بچیوں کوکھاناکھلاکرمہمان خانے میں سونے کیلئے
” تھامس ایڈیسن مشہور عالم سائنسدان تھا..
اپنے بچپن میں بخار کے باعث وہ سماعت سے محروم ہو گیا تھا...
جب وہ چھوٹا تھا....
تو ایک دن وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے کہ " اپنی ماں کو دے دو ."
ماں نے کھول کر پڑھا...
اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.
پھر اس نے با آواز بلند پڑھا.
” تمھارا بیٹا ایک جینئس ہے.... یہ سکول اس کے لئے بہت چھوٹا ہے، اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں. “
اس کے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری
اس کی والدہ نے لے لی....
سالوں بعد جب تھامس ایڈیسن ایک سائنسدان کے طور مشہور عالم ہو گیا تھا....
اور اس کی والدہ وفات پا چکی تو وہ اپنے خاندان کے
پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا.اُس نے خط کو کھولا تو پر اس پر لکھا تھا....
فرعون کے زمانے میں لوگ ٹیکنالوجی اور سائنس میں ہم سے بہت آگے تھے، یہ سات ہزار سال قبل سات سو کلو میٹر دور لکسر شہر سے ایک کروڑ پتھر یہاں لائے، ہر پتھر 25 سے اڑھائی سو ٹن وزنی تھا،
یہ ون پیس تھا اور یہ پہلے پہاڑ سے چوڑائی میں کاٹا گیا تھا اور پھر سات سو کلو میٹر دور لایا
گیا تھا، یہ پتھر بعد ازاں صحرا کے عین درمیان 170 میٹر کی بلندی پر لگائے بھی گئے،
قدیم مصری آرکیٹیکٹس نے آٹھ ہزار سال قبل مقبروں کا ایسا ڈیزائن بنایا جو ہر طرف سے بند بھی تھا لیکن بندش کے باوجود اندر سورج کی روشنی بھی آتی تھی، ہوا بھی
اور اندر کا درجہ حرارت بھی باہر کے ٹمپریچر سے کم رہتا تھا،
ان لوگوں نے آٹھ ہزار سال قبل لاشوں کو حنوط کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیا اور یہ خوراک کو ہزار سال تک محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی جان گئے، قاہرہ کے علاقے جیزہ کے بڑے اہرام میں 23 لاکھ بڑے پتھر
غیر مسلموں میں اسلامی پمفلٹ تقسیم کرنے والے ان بزرگ کا نام شیخ نعمت اللہ خلیل ہے. ان کا اصل تعلق ترکی سے ہے،یہ عہد سلطان عبدالحمید کے علماء کرام کے شاگردوں میں سے ہے. انہوں نے اپنی زندگی کے 15 سال مدینہ منورہ میں اور 15 سال مکہ مکرمہ کی ایک مسجد میں امامت کرتے گزارے.
یہ عربی،ترکی،انگریزی،اردو اور جاپانی سمیت کئی زبانوں پر مہارت رکھتے ہیں.
انہوں نے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں 50 سے زائد ملکوں کا سفر کیا اور ہزاروں لوگ ان کے ہاتھ مسلمان ہوئے.
دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں انہوں نے جاپان میں 14 سال قیام کیا،انہوں نے جب
دعوت کا کام شروع کیا جاپان میں 3 مسجدیں تھی 14 سال بعد ان کے ہاتھ سے 200 مسجدیں تعمیر و آباد ہوچکی تھیں.
1981 میں انہوں نے قرآن مجید کے 20000 نسخے چائنہ کے مسلمانوں تک چائنہ میں خود جا کر پہنچا آئے.
یہ تین بار دعوت کے سلسلے میں سائبیریا