انسان اس سیارہ پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔ اس کا ڈی این اے (DNA)اور جینس (Genes)کی تعداد اس سیّارۂ زمین پر پائے جانے والے دوسرے تمام جانداروں سے بہت مختلف ہے۔
انسان کو زمین پر رہنے کے لیے بہت ہی نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ زمین کے اصل باشندے یعنی جانوروں کو اس طرح کے نرم بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انسان کے اصل سیّارہ پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق
تھی ۔انسان زمین کے سارے دوسرے رہنے والوں سے بالکل الگ ہے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور بندر یا چمپینزی وغیرہ کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ کسی اور سیّارہ سے اسے زمین پر کسی نے پھینک دیا ہے ۔انسان کو جس اصل سیّارہ پر خلق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا ماحول نہیں تھا ۔
اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہو جات ،اسے پیدائشی سیّارہ کے بالکل مطابق بنائی گئی تھی۔لیکن یہ اس سیّارہ کا اتنا حساس جاندار تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نرم و نازک مزاجی کو دھیان میں رکھ کر اس کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے
جس طرح اسے اپنے سیّارہ پر آرام دہ اور نرم و نازک بستر پر سونے کی عادت تھی زمین پر آنے کے بعد وہ یہاں بھی کوشش کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکے۔جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات،مکانات اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی ان ہی جیسے مکانات کو بنانے کی کوشش کرتا
رھتا ھے۔باقی سب زمین کے جاندار اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ اس زمین کی مخلوقات عقل سے عاری ہیں۔ جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے اور نہ ہی اچھا رہنے کی ۔یہ اور بات ہے کہ انسان زمین کے سخت ماحول میں رہ کر سخت مزاج ہو گیا ہے
جبکہ اصل سیّارہ میں اس کی فطرت میں محبت تھی اور وہ امن و سکون کی زندگی گزار سکتا تھا انسان زمین پر ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیّارہ پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کی معیاد گزار کر اپنے اصل سیّارہ کو واپس جا سکے۔
ڈاکٹر ایلس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل اور شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کے اپنے سیّارہ سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی کچھ ہزار سال گزرے ہیں ۔یہاں بھی اپنی زندگی کو پہلے والے سیّارہ کی طرح آرام دہ بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
کبھی گاڑی ایجاد کرتا ہے تو کبھی موبائل فون۔اگر انسان کو آئے ہوئے چند لاکھ سال بھی گزرے ہوتے تو یہ جو ایجادیں آج کے دور میں دکھائی دے رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آچکی ہوتیں۔ کیونکہ انسان کو بنانے والے نے اس کے پاس اپنی زندگی بہتر بنانے کی تمام تر صلاحیتیں دی ہیں۔
ڈاکٹر ایلس سلور نے جو بھی نقطے اپنی کتاب میں اٹھائے ہیں انھیں ابھی تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں کرسکا ۔یہ تمام تحقیق ایک سائنسدان کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔یہ کوئی کہانی نہیں ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جو نتائج ڈاکٹر سلور نے نکالی ہیں وہ کم و بیش تمام الہامی کتابوں میں کسی نہ کسی شکل میں
موجود ھیں۔ڈاکٹر سلور کی تحقیق پڑھتے وقت کیا آپ کا دھیان قرآن کی آیتوں کی طرف نہیں گیا ،جس میں اللہ نے حضرت آدم و حوا کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ اللہ نے آدم کو جنت میں رکھا اور ایک پابندی کے علاوہ جنت میں جس طرح چاہے رہنے کی آزادی دی۔
یہ جنت وہ تھی جس میں آدم و حوا کو غذا کے لیے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی ۔اور انھیں محل سمیت سہولتیں حاصل تھیں۔ شاید اسی جنت کو ڈاکٹر سلور انسان کا اصل سیّارہ مان رہے ہیں ۔دوسرے یہ کہ حضرت آدم و حوا کو ترک اولیٰ کی وجہ سے جنت (ڈاکٹر سلور کے مطابق سیّارے) سے نکال دیا گیا۔
ظاہر ہے کوئی طاقت ایسی تھی جس نے ان دونوں کو سیّارۂ زمین پر بھیج دیا ۔ڈاکٹر سلور کا پھینکنا لفظ زیادہ مناسب لگ رہا ہے کیونکہ دونوں کو اس طرح زمین پر اتارا گیا کہ آدم کو سری لنکا میں کوہ آدم پر اتارا گیااور حوا کو عرب میں ۔دونوں ایک دوسرے کی تلاش میں رہے اور بڑی کوششوں کے
بعد دونوں ایک دوسرے کو ڈھونڈھ پائے ۔تیسرے یہ کہ ڈاکٹر سلور کی تھیوری کے مطابق انسان سزا کے طور پر سیّارۂ زمین پر ہے لیکن یہ اس کا آخری پڑاؤ نہیں ہے بلکہ ایک دن وہ اپنے اصل سیارے پر واپس جائے گا۔
قرآن بھی تو یہی کہہ رہا ہے کہ اے انسانو!یہ دنیا کی زندگی تمہارے لئے آزمائش ہے ۔یہ تمہارا مستقل ٹھکانا نہیں ہے ،جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا اور جزا ملے گی ۔اچھے اعمال پر تم کو جنت ملے گی جہاں کی زندگی انتہائی خوبصورت اور پرسکون ہے اور وہی تمہارا اصل گھر ہے۔
یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا جاندار ہے جو ان کے یہاں ایلین (Alien)ہونے کی نشانی ہے۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
خسارہ یا فایدہ
انسان کے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان فقط ایک موھوم ساعت ھے اور اس ساعت کا شمار کایناتی وقت کی ادنی اکای سے بھی نھیں کیا جاسکتا۔ جب حیات و ممات کا مامعلہ ھو تو عجز کے سواہ انسان کے پاس کوی چارہ نھیں رہ جاتا۔لیکن بدنصیب ھیں وہ لوگ جو عجز کی لطافت سے اشنا نھیں ھوسکتے
۔ نادان ھیں وہ جو اپنے قدموں سے زمین کا سینہ کوٹتے ھیں اور اپنی زبان سے کوڑے کا کام لیتے ھیں، صرف ایک بار وہ سر اٹھاکر اسمان کو دیکھ لیں تو شاید انھیں اپنی بے وقعتی کا اندازہ ھوسکے گا۔ زرا دیکھیے تو،
بیکراں کاینات میں لاکھوں، کروڑوں اوارہ کھکشاییں اور ان میں موجود ایک درمیانے درجے کی کھکشاں میں موجود ایک معمولی ستارے کے گرد چکراتی ھماری زمین۔ جس کی حقیقت بقول ایاین اسٹایین کے ساحل کی ریت پر موجود ذروں میں سے ایک ذرے سے زیادہ نھیں۔
یہ سائنسدان، محقق، مصنف ، امریکہ کے نامور ماہرِ ماحولیات Environmentalist اور ایکولوجسٹ Ecologistڈاکٹر ایلیس سِلور Ellis Silverہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کرۂ ارض یعنی زمین انسان کا آبائی سیارہ نہیں ہے، انسان اس سیارے یعنی زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے
بلکہ انسان اس زمین کے لیے ایلین یا مسافر ہے ۔ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ اسے کہیں اور تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے انسان اپنے اصل مسکن سے اس زمین پر آگیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ الفاظ کسی مذہبی عالم کے نہیں بلکہ ایک سائنس دان کے ہیں ۔
ڈاکٹر ایلس سلور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ماحولیات کے ماہر ہیں۔
اپنی کتاب Humans are not from earth میں ڈاکٹر ایلس سلور نے لکھا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔