ﺳﻮال ﺗﮭﺎ کہ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ کس مذہب کے لوگ داخل کیے جائیں گے ۔ ﯾﮩﻮ۔۔۔۔ﺩﯼ ؛ ﻋﯿ۔۔۔ﺴﺎﺋﯽ یا پھر ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ؟ اس سوال کے جواب کے لئے تینوں مذاہب کے علماء کو مدعو گیا گیا ۔
مسلمانوں کی طرف سے بڑے عالم امام ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺒﺪﮦ ﻋﯿ۔۔۔۔۔ﺴﺎﺋﯿﻮﮞ کی طرف سے ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮮ
ﭘﺎﺩﺭﯼﺍﻭﺭﯾﮩ۔۔۔ﻮﺩﯾﻮﮞ کی طرف سے ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮮ ﺭﺑﯽ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺎ گیا :
وہ بازار سے گزر رہے تھے۔۔۔۔ مولانا صاحب کے سامنے کریانے کی دکان تھی۔۔۔۔
ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی ۔۔۔۔ اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ رہا تھا۔
وہ جس چیز (جنس) کی طرف اشارہ کرتی دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ جنس نکالنے لگتا تھااور اس وقت تک وہ جنس
تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی۔۔۔ اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھادھند جنس نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا۔۔۔
یہ عجیب منظر تھا ۔۔۔ دکاندار وارفتگی کے ساتھ گاہک کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اور گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو
پوری دکان میں گھما رہا تھا ۔۔۔ اور دکاندار اٰلہ دین کے جن کی طرح چپ چاپ اس کے حکم پر عمل کر رہا تھا۔۔۔
خاتون نے آخر میں لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا "چلو بس کرو ۔۔۔۔ آج کی خریداری مکمل ہو گئی۔۔۔۔"
ہم چار لوگ تھے‘ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے‘ گرمی اور حبس تھا‘ ہمیں پسینہ آ رہا تھا‘ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا‘ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا،، میں نوٹ
کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا‘ یہ نوٹ اُڑ کر میرے پاؤں کے قریب پہنچ گیا‘ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پاؤں رکھ دیا...
دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا‘ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا‘ زمین پر بیٹھ کر میرا پاؤں ہٹایا‘‘ نوٹ کو سینے پر
رگڑ کر صاف کیا‘ نوٹ کو چوما‘ آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا...
ہم چاروں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ گرجاتے ہیں‘ دیکھنے والے ان کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہم نوٹ اٹھا کر
ضرور پڑھیں
میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی
جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی مجھے عمر سے بدبو آتی تھی ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا خیر میں اللہ کے
سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح
💕وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا
میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی
تنقید کرتی عمر پہ غصہ کرتی عمر مجھے پیار سے سمجھاتا کبھی چپ ہو جاتا
کبھی غصہ ہو کر
گھر سے باہر چلا جاتا
💕میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی
نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.
وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔
یہ طریقہ اسکے لئے
ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.
ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر
(موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو
سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ
ایک غریب آدمی روزانہ ایک کاغذ پر
“اے میرے پروردگار مجھے ایک لاکھ روپے بھیج دے”
لکھ کر ایک غبارے کے ساتھ باندھ دیتا اور آسمان کی طرف اڑا دیتا تھا
۔ غبارہ اڑتا ہوا پولیس اسٹیشن کے اوپر سے گذرتا تو پولیس والے اس غبارے کو پکڑ کر پرچی میں لکھی
ہوئی عبارت کو پڑھتے اور اس غریب اور بھولے بھالے آدمی کی دعا پر ہنستے۔😂
ایک روز پولیس والوں نے غبارے میں رکھی پرچی میں لکھی دعا پڑھ کر سوچا کہ کیوں نہ اس غریب آدمی کی مدد کی جائے
، سب پولیس والوں نے ملکر چندہ کیا تو بمشکل پچاس ہزار روپے جمع کیئے اور اس
غریب آدمی کے گھر جا کر رقم دے آئے۔😜
دوسرے روز پولیس والوں نے پھر غبارہ دیکھا تو حیران ہوئے اور اسے فوراً پکڑا اور اس میں لکھی عبارت پڑھی تو انکے ہوش اڑ گئے
۔ اس میں لکھا تھا😛
“ یا رب العالمین آپکی بھیجی ہوئی رقم مل
اکثر غیر مسلم سوال کرتے ھیں کہ مچھلی زبح کے بغیر مسلمان کیوں کھاتے ھیں اور باقی جانور زبح کر کے کیوں کھاتے ھیں
اسکا جواب سائنس دے رھی ھے کہ جو جانور کے اندر خون ھوتا ھے یہ بیکٹیریا اور باقی جرثیموں کی رھائش گاہ ھے جب ھم جانور زبح
کرتے ھیں تو دل اور دماغ کا رشتہ ٹوٹتا نھیں دل زندہ رھتا ھے اور جسم کا سارا خون زبح کی ھوئی شریانوں سے باھر نکل جاتا ھے اسطرح گوشت حلال اور پاک صاف ھوتا ھے اور اگر زبح نہ کریں جھٹکے سے جانور کی جان لی جائے تو دل بھی
اسی وقت مردہ ھو جاتا ھے اوراسکے جسم کا سارا خون گوشت میں جزب ھو جاتا ھے وہ گوشت پھر کھانے کے قابل نھیں ھوتا نہ ھی حلال ھوتا ھے اس لیے ھم زبح شدہ جانور کا گوشت کھاتے ھیں
مچھلی کو زبح کرنے کی ضرورت ھی نھیں