کرپٹو کرنسی دراصل ایسی کرنسی ہوتی ہے جس کا جسمانی طور پر کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف ڈیجیٹل طور پر یعنی ڈیوائسز میں بیلنس کی طرح موجود ہوتی ہے اور اسے آپ لین دین کیلئے استعمال کر سکتے ہیں
کرپٹو کرنسی Mine کرنے کے چار طریقے ہیں
سب سے پہلا طریقہ Cloud Mining کہلاتا
ہے جس میں آپ کسی بھی کمپنی کو Rent دے کر کرپٹو مائننگ کراتے ہیں اور دوسرا طریقہ CPU Mining کہلاتا ہے جس میں کمپیوٹر کی طرز پر مدر بورڈ اور پروسیسرز کی مدد سے آپ Mining کرتے ہیں اور تیسرا طریقہ GPU Mining کہلاتا ہے جس میں آپ گرافک کارڈز سے Mining کرتے ہیں
اور چوتھا Aisc Mining ہے یہ ایسی ڈیوائسز ہیں جنہیں صرف Mining کیلئے ترتیب دیا ہے
ان میں سب سے زیادہ جی پی یو مائننگ کا طریقہ استعمال ہوتا ہے اور سی پی یو مائننگ کرنے سے پیسے کم ملتے ہیں اور اس پر اخراجات بہت زیادہ ہیں ہیں اور یہ چاروں طریقے ہیں بڑے
پیمانے پر کام کرنے کے لئے ہوتے ہیں جنہیں ہم فارم کا نام دیتے ہیں۔۔۔
اب آ جاتے ہیں پی آئی نیٹ ورک کی طرف یہ ایک ایپلیکیشن ہے جو دعوی کرتی ہے کہ آپ اس سے Mining کر سکتے ہیں یاد رہے یہ ایپلیکیشن 2019 میں لانچ ہوئی ہے اور اب تک اس کے تیس لاکھ سے زیادہ یوزر ہوچکے ہیں اور
آتے ہیں فائدے کی طرف کے پی آئی نیٹ ورک کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے تو کسی بھی ایپ کو اس کی ڈاؤنلوڈز اور ایکٹو یوزرز کی وجہ سے فائدہ ہوتا ہے لیکن اس میں یوزر کا کتنا فائدہ ہے یہ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 2019 میں لانچ کی گئی اپلیکیشن ابھی تک پی آئی کوائنز کرپٹو مارکیٹ
میں لانچ نہیں کر سکی اور باقی Coins and Referrals کی بات رہ گئی تو وہ صرف اور صرف ایکٹیو یوزرز لینے کا طریقہ ہے حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں اور حیرت کی بات یہ کہ اس وقت دنیا میں دو ہزار سے زائد (زیادہ بھی ہو سکتی ہیں) کرپٹو کرنسی کام کر رہی ہیں اور ان میں
پی آئی شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ایک روپیہ کا اسٹاک موجود ہے اس کے صرف اور صرف ستر ملازم ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف یوزر انٹریکشن ہے
اور کسی کو فائدہ ہو نہ ہو App کو فائدہ ہورہا ہے اور کتنے عرصے سے یہ سننے میں آرہا ہے کہ یہ آفیشل مارکیٹ میں لانچ ہونے والی ہے لیکن
ایسا کبھی نہیں ہوا اور نا ہو گا
اور آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ جو کرنسی ایک ہزار نمبر پر ہے اس کی قیمت صرف ایک سینٹ ہے یعنی پاکستانی ڈیڑھ روپیہ اور اس سے بھی نیچے کافی کرنسیاں ہیں اگر کام کرنا ہے تو آپ ان میں بھی ٹریڈ کر سکتے ہیں اور بٹ کوائن Mining بھی کر سکتے
ہیں ایک وہ کرنسی جس کا وجود ہی نہیں اور نا ہی کوئی سٹاک ویلیو اس پر محنت کرنا فضول ہے۔۔
وقار ذکاء نے بھی اس پر پوسٹ کی ہے اور اس کی حقیقت سے آشناس کرایا ہے۔۔۔
وقار زکا وہ شخص ہے جو کئی سالوں سے کرپٹو کرنسی کے لیے لڑ رہا ہے اور اس نے ہائی کورٹ میں بھی
مختلف ایشوز پر کیس کیے ہیں
اور اس نے ایک کمپنی بھی تشکیل دی ہے جس کا نام ٹیکنالوجی موومنٹ پاکستان ہے اور وقار ذکا اور اس کی ٹیم نے اس پر تفصیلی رپورٹ چند دن پہلے شائع کی ہے اور بتایا کہ یہ صرف ڈائونلوڈ اور یوزر لینے کا طریقہ ہے اور نا ہی موبائل سے آف لائن مائننگ ہوتی ہے اور
یہ آپ کا تمام ڈیٹا بھی اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے اور یہ فراڈ ہے اور کچھ نہیں۔۔۔
وقار زکا وہ شخص ہے جس کو اس کام میں تجربہ بھی ہے اور علم بھی اس نے ایک گروپ بھی تشکیل دیا ہے Crypto Counseling کیلئے جس کی ماہانہ فیس بارہ سو پچاس روپے ہے اور گروپ کے 17 ہزار
میمبر بھی ہیں یعنی وہ 2 کروڑ روپے سے زائد ماہانہ اور 24 کروڑ روپے سالانہ کما رہا ہے اور وہ صرف کرپٹ کرنسی کے حوالے سے لیکچر دیتا ہے گروپ میں ۔۔۔
مجھ جیسا عام آدمی غلط ہو سکتا ہے لیکن وقار زکا تو اس معاملے میں غلط نہیں ہو سکتا
اگر کرپٹ کرنسی میں کام کرنا بھی ہے تو
اس وقت بہت سی ایسی کرنسیاں ہیں جن کی ویلیو چند امریکی سینٹ میں ہے اور وہ بھی اوپر جا رہی ہیں ان کے ساتھ بھی کام کر سکتے ہیں۔۔۔۔ اس کے علاوہ اور بھی فری لانسنگ میں بہت سے کام ہیں ان میں اپنا کیریئر بنا سکتے ہیں اور فری لانسنگ کے حوالے سے میں بھی حاضر ہوں مجھ سے بھی
معلومات لے سکتے ہیں لیکن جو چیز ہے ہی فراڈ اس پر محنت کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔
اور اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی کوئی پھل نہیں ملنا یہ صرف نمبرز ہی رہیں گے اور آپ اس کو کبھی Sell Purchase نہیں کر سکیں گے۔۔۔
اور افسوس کی بات یہ کہ بڑے اکائونٹ
بھی Referrals کے چکر میں پوسٹ کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں
یہ تھی تمام معلومات میں آج بھی اپنی بات پہ قائم ہوں کی یہ فراڈ ہے اور کچھ نہیں آگے آپ کی مرضی اپنا وقت ضائع کرنا ہے اپنی پرائویسی کی دھجیاں اڑانی ہیں اپنا ڈیٹا Apps کو دینا ہے تو بخوشی کرتے رہیں۔۔۔۔۔
بقلم خود علی بھٹی
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا.
مولوی صاحب غصے میں آ گئے. بولے. ارے نالائق تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آ گئے؟. بے وقوف ایسے مسجد میں آؤ گے تو جہنم میں جاؤ گے۔
میں نے گھر آ کر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی پتر مولوی صاحب
غصے میں ہوں گے جو انہوں نے ایسا کہہ دیا ورنہ بیٹا جہنم میں جانے کے لئے تو بڑی سخت محنت کی ضرورت ھوتی ھے۔
جہنم حاصل کرنے کے لئے پتھر دل ہونا پڑتا ھے۔
جہنم لینے کے لئے دوسروں کا حق مارنا پڑتا ھے. قاتل اور ڈاکو بننا پڑتا ھے، فساد پھیلانا پڑتا ھے، مخلوقِ خدا کو اذیت دینی
پڑتی ھے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ھے.
محبت سے نفرت کرنا پڑتی ھے۔ اس کے لئے ماؤں کی گودیں اجاڑنی پڑتی ہیں. رب العالمین اور رحمت العالمین سے تعلقات توڑنے پڑتے ہیں، تب کہیں جا کر جہنم ملتی ہے۔
تُو تو اتنا کاہل ھے کہ پانی بھی خود نہیں
ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ نے عالمہ عورت سے ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ، شادی کے بعد اس لڑکی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﮧ ﮬﻮﮞ اور ﮨﻢ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ -
ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ چلو اچھا ہو بیگم کی برکت سے زندگی
آفس میں آتے ہی میں کرسی پر ﮈھہ گیا اے سی آن کیا اور آفس بواۓ کو چاۓ لانے کا کہا اور آنکھیں بند کرکے کرسی سے ٹیک لگا لی اچانک میرے موبائل کی بیل بجی کوئی نامعلوم نمبر بات کرنے کو دل تو نہیں تھا مگر بادل نخواستہ پھر بھی ریسیو کر لیا دوسری جانب سے
نسوانی آواز میں سلام کے بعد پوچھا گیا کیا آپ اشرف صاحب بات کر رہے ہیں جو رشتے کرواتے ہیں میں سلام کا جواب دیا اور کہا جی میں اشرف بات کر رہا ہوں اور میں رشتے کرواتا ہوں اس نے کہا کتنی فیس لیتے ہیں میں نے کہا کوئی فیس نہیں فی سبیل اللہ اس نے بے یقینی کی سی
کیفیت میں کہا واقعی میں نے جی أپ کو کس کے لیے رشتہ درکار ہے اس نے کہا اپنے لیے تو میں نے پوچھا آپ پڑھتی ہیں گھریلو خاتون ہیں کنواری ہیں مطلقہ ہیں تو جواب أیا میں جسم بیچتی ہوں ایک جسم فروش عورت ہوں یہ سنتے ہی میرے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا اور ﮈرتے ﮈرتے پوچھا
سقراط جب بچہ تھا، تو روزانہ ایک راستے پر چہل قدمی کے لیے جایا کرتا تھا۔
اس راستے میں ایک کمہار کا گھر تھا، جو مٹی کے برتن بنایا کرتا تھا۔ وہ کمہار کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اسے غور سے تکتا رہتا ۔ اسے برتن بننے کا عمل دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا ۔
ایک دن کمہار نے اس کی
محویت دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔
" بیٹا ! تم یہاں سے روز گزرتے ہو اور میرے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہو ۔۔۔۔۔ تم کیا دیکھتے ہو؟"
" میں آپ کو برتن بناتے دیکھتا ہوں اور یہ عمل مجھے بہت اچھا لگتا ہے دیکھنا ۔۔۔۔۔ اس سے میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔۔ میں آپ
سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ "
سقراط کی بات سن کر کمہار بولا ۔
" یہ تو بہت اچھی ہے ۔۔۔۔۔ تم پوچھو ، جو پوچھنا چاہتے ہو؟"
" آپ جو برتن بناتے ہیں ۔۔۔۔ اس کا خاکہ کہاں بنتا ہے ؟"
" اس کا خاکہ سب سے پہلے میرے ذہن میں بنتا ہے۔۔۔۔۔ "
یہ سن کع سقراط جوش سے بولا ۔
"
قمر چائے کے اشتہار میں ایک لڑکا اپنی منگیتر سے لڑکی کے والدین کی عدم موجودگی میں اُسی کے گھر ملنے آتا ہے
لڑکی گھبراتی ہے، لیکن کہتی کہ یہیں رُکو، میں چائے بنا کر لاتی ہوں. چائے پی کر لڑکا خفیہ طریقے سے گھر سے نکل رہا ہوتا ہے تو لڑکی کے ماں
باپ آجاتے ہیں اور اُسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں. جس پر ماں کہتی ھے، "دیکھا میری بیٹی کا کمال". باپ فوراّ بولتا ھے، "نہیں یہ قمر چائے کا کمال ھے۔"
کہنے کا مطلب یہ کہ اِس حیا باختگی کو لڑکی سمیت اس کے والدین بہت آسان لیتے دکھائی دیتے ہیں.
افسوس ہمارے معاشرے کو بے راہ روی اور لُچر پن کے انجیکشنز تسلسل سے کِس کِس طریقے سے لگائے جا رہے ہیں.
یہ ہے "میڈیا کا کمال" کہ کس ڈھٹائی اور فخر سے بےحیائی کا فروغ کر رہا ہے. اور ہماری قوم کے بچے، نوجوان، بڑے سبھی انتہائی سکون سے دیکھے چلے جا رہے ہیں